✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

علم و علماء کی فضیلت

عنوان: علم و علماء کی فضیلت
تحریر: محمد امان

اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور کرم بالائے کرم یہ کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی امت میں پیدا کیا۔

اللہ پاک نے انسان کو جن چیزوں سے آراستہ کیا ان میں سب سے اہم چیز علم ہے، جس کے ذریعے انسان اور دیگر حیوانات کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔

علم کے کئی فضائل احادیث و واقعات سے ہمیں معلوم ہوتے ہیں آئیے ان میں سے ہم کچھ پڑھتے ہیں۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ كُنْ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الخَامِسَةَ فَتَهْلِكَ، قَالَ: فَقُلْتُ لِلْحَسَنِ: وَمَا الخَامِسَةُ؟ قَالَ المُبْتَدِع (الابانۃ الکبری ابن بطۃ، جلد: 1، صفحہ: 341، حدیث: 210، مکتبہ دار الرایۃ)

ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: عالم بنو، یا علم حاصل کرنے والے، یا سننے والے، یا (اہل علم سے) محبت کرنے والے، اور پانچواں (گروہ) مت بنو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا: پانچواں گروہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: بدعتی۔

عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ: خُيِّرَ سُلَيْمَانُ بَيْنَ الْمُلْكِ وَالْمَالِ فَاخْتَارَ الْعِلْمَ فَأُعْطِيَ الْمُلْكَ وَالْمَالَ لِاخْتِيَارِهِ الْعِلْمَ (مسند الفردوس، جلد: 2، صفحہ: 192، حدیث: 2957، دار الکتب العلمیہ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو مال اور بادشاہی کے مابین اختیار دیا گیا تو آپ علیہ السلام نے علم اختیار فرمایا جس کی برکت سے اللہ نے انہیں دولت و بادشاہی بھی عطا فرما دی۔

تختِ بلقیس کس طرح آیا:

ملکہ سبا بلقیس کا ایک تخت تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور اس کے ہدیہ و تحائف کوٹھکرا دیا اور اس کو یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ مسلمان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہو جاۓ تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے ہی اس کا تخت میرے دربار میں آجاۓ چنانچہ آپ نے اپنے دربار میں درباریوں سے فرمایا:

قَالَ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَؤُا اَیُّكُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَۚ وَ اِنِّیْ عَلَیْهِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ (النمل: 38، 39 )

ترجمہ کنزالایمان: سلیمان نے فرمایا اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہوکر حاضر ہوں۔ ایک بڑا خبیث جن بولا کہ وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔

جن کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجاۓ۔ یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت آصف بن برخیا رضی اللہ تعالی عنہ جواسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے۔ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ (النمل: 40)

ترجمہ کنزالایمان: اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔

چنانچہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تحت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تختے زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا۔ (صراط الجنان، جلد: 7، صفحہ: 200 تا 207)

تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا:

هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ (النمل:40)

ترجمہ کنز الایمان: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے تو وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔

صحابی رسول کا شوق علم:

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے رسالے علم و حکمت کے 125 مدنی پھول کے صفحہ: 11 پر لکھا ہے: حضرت سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول کریم، صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ظاہری وفات کے وقت میری کم عمر تھی۔

میں نے اپنے ایک ہم عمر انصاری لڑکے سے کہا: چلو اصحاب رسول رضی الله عنہم اجمعین سے علم حاصل کر لیں، کیونکہ ابھی وہ بہت ہیں۔ انصاری نے جواب دیا: اے ابن عباس! تم بھی عجیب آدمی ہو، اتنے اصحاب(علیہم الرضوان) کی موجودگی میں لوگوں کو بھلا تمہاری کیا ضرورت پڑے گی! اس پر میں نے انصاری لڑکے کو چھوڑ دیا اور خود علم حاصل کرنے لگ گیا۔

کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ معلوم ہو تا فلاں صحابی کے پاس فلاں حدیث ہے تو میں اس کے گھر دوڑ کر جاتا۔ اگر وہ آرام کر رہے ہوتے تو میں اپنی چادر کا تکیہ بناکر ان کے دروازے پر پڑار ہتا اور گرم ہوا میرے چہرے کو جلاتی رہتی۔

جب وہ صحابی باہر آتے اور مجھے اس حال میں پاتے تو متاثر ہو کر کہتے: رسول انور، بےکسوں کے یاور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا کے بیٹے! آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں کہتا، سنا ہے آپ، سرور ذیشان، محبوب رحمن صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فلاں حدیث روایت کرتے ہیں، اسی کی طلب میں حاضر ہوا ہوں۔

وہ کہتے آپ نے کسی کو بھیج دیا ہوتا اور میں خود چلا آتا۔ میں جواب دیا: نہیں، اس کام کے لئے خود مجھے ہی آنا چاہئے تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب اصحاب رسول رضی الله عنہم أجمعين وصال کر گئے تو وہی انصاری دیکھتا کہ لوگوں کو میری کیسی ضرورت ہے اور حسرت سے کہتا: ابن عباس! تم مجھ سے زیادہ عقل مند تھے۔

امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ بصیرت:

اسی طرح حضرت سیدنا قاضی ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا، والدہ نے گھر چلانے کے لیے انہیں ایک دھوبی کے پاس بٹھا دیا، ایک بار یہ حضرت سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جاپہنچے وہاں کی باتیں انہیں اس قدر پسند آئیں کہ یہ دھوبی کو چھوڑ کر وہیں بیٹھنا شروع ہو گئے۔

والدہ کو جب پتا چلتا وہ انہیں اٹھاتیں اور دھوبی کے پاس لے جاتیں، جب معاملہ بڑھا تو ان کی والدہ نے حضرت سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: اس بچے کی پرورش کرنے والا کوئی نہیں، میں نے اسے دھوبی کے پاس بٹھایاتھا تاکہ کچھ کماکر لا سکے، مگر آپ نے اسے بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

حضرت سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اے خوش قسمت! اسے علم کی دولت حاصل کرنے دے وہ دن دور نہیں جب یہ باداموں، دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ کھاۓ گا۔

یہ بات سن کر حضرت سیدنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ بہت ناراض ہوئیں، کہنے لگیں: آپ ہم سے مزاق کرتے ہیں بھلا ہم جیسے غریب لوگ باداموں اور دیسی گھی کا حلوہ کیسے کھاسکتے ہیں؟

بہر حال حضرت سیدنا امام ابو یوسف رحمۃ الله عليہ استقامت کے ساتھ علم دین حاصل کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب قاضی کا منصب ان کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک دفعہ خلیفہ نے ان کی دعوت کی، دوران دعوت خلیفہ نے باداموں، دیسی گھی کا حلوہ اور عمدہ فالودہ ان کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا: اے امام! یہ حلوہ کھائے، روز روز ایسا حلوہ تیار کروانا ہمارے لئے آسان نہیں۔

یہ سن کر حضرت سیدنا امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آئی تو وہ مسکرانے لگے، خلیفہ کے پوچھنے پر فرمایا: میرے استاد محترم حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے سالوں پہلے میری والدہ سے فرمایا تھا کہ تمہارا یہ بیٹا باداموں، دیسی گھی کا حلوہ اور فالودہ کھاۓ گا، آج میرے استاد محترم کا فرمان پورا ہو گیا۔

پھر انہوں نے اپنے بچپن کا سارا واقعہ خلیفہ کو سنایا تو وہ بہت تعجب کرنے لگے اور کہا: بے شک علم ضرور فائدہ دیتا اور دین و دنیا میں بلندی دلواتا ہے۔ (عیون الحكايات، جلد: 2، صفحہ: 310 تا 302، مکتبۃ المدینہ، ملخصاً)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور علماء کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ صَلُوْا عَلَی الْحَبِیْبِ صَلَّى اﷲُ عَلٰى مُحَمَّدٍ

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ کیا شان ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانوں اور وارثین کی ۔

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں