عنوان: | عورت ایک سے زائد شادیاں کیوں نہیں کرسکتی؟ |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی ، کندرکی، مرادآباد (یوپی) |
شادی بنی نوع انسان کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت، دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر بے رنگ ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے سکون کا باعث ہیں۔ اسی لیے ہر طبقہ انسانی میں نکاح اور شادی کا تصور بصورتِ مختلف پایا جاتا ہے، اور دنیا کے تقریباً تمام مذاہب نے اپنے اپنے اعتبار سے اس کے کچھ اصول وقواعد اور قانون کم و بیش کے ساتھ وضع کر رکھے ہیں جو ان کی مذہبی کتب میں موجود ہیں۔
اگر کوئی مرد ایک عورت سے اپنی خواہشات کی تکمیل نہیں کر سکتا تو مذہبِ اسلام نے اسے حرام طریقے سے اپنی خواہش کو مٹانے سے منع فرما کر جائز طور پر بیک وقت دو، تین، اور چار شادیاں کر کے اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کی اجازت دی ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَاعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ اَدْنَىٰ اَلَّا تَعُولُوا [النساء: 3]
ترجمہ کنز الایمان: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں، دو دو اور تین تین اور چار چار۔ پھر اگر ڈرو کہ دو بیویوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیز جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
آیتِ مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت شریعتِ مطہرہ کی طرف سے دی گئی ہے، لیکن ساتھ میں یہ حکم بھی عائد کیا گیا ہے کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے میں سب کے ساتھ عدل وانصاف کرے گا، یعنی کھانے، پینے، رہنے وغیرہ ہر معاملے میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کرے گا، ورنہ اسے ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بیک وقت ایک سے زائد شادی کرنے کا حکم اسلام نے صرف مرد کو دیا ہے۔ عورت کے لیے یہ جائز نہیں، بلکہ ایک عورت جس کا کسی سے نکاح ہو گیا ہے، اب وہ دوسرے مرد سے نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد ہوگا ہی نہیں۔ اس کے ساتھ بیوی کی طرح رہنا دونوں کے لیے ناجائز وحرام ہے۔ ہاں، اگر شوہر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت گزار کر دوسرے شخص سے نکاح کرنا عورت کے لیے جائز، بلکہ مستحسن ہے۔
یہ بات تو واضح ہو گئی کہ اسلام نے بعض ضروریات، شرائط، تکمیلِ خواہشات، اور دیگر وجوہ کے پیشِ نظر مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے۔ لیکن اس سے متاثر ہو کر عام اور اعلیٰ طبقات کی خواتین کے اذہان میں یہ سوال خلجان پیدا کرتا ہے کہ پھر اسلام عورت کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟ کچھ شیطانی فکر رکھنے والے مخالفینِ اسلام بھی اس بات پر معترض ہوتے ہیں اور اس مسئلہ کا سہارا لے کر اسلام کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں کہ اسلام مرد وعورت کے مابین انصاف نہیں کرتا۔ ان کے خیال میں جب مرد وعورت دونوں ہی برابر ہیں تو مردوں کی مانند عورتوں کو بھی ایک ساتھ چار شادیاں کرنے کی اجازت نہ دینا ان کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ ایسے سوالات پیدا ہونے کا سبب یہی ہے کہ جن مرد وخواتین کا مطالعہ اور سوچ وفکر گہری نہ ہو، جو علمِ دین سے وابستہ نہ ہوں، اور اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر جن کا یقین محض لرزتا ہوا سا ہو، تو ان کے قلوب واذہان میں اس قسم کے سوالات کا ازخود پیدا ہو جانا ایک لازمی سا امر ہے۔
ان شریر ذہنوں میں ان سوالوں کے جنم لینے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا، لیکن اسلام چاہتا ہے کہ عقلی طور پر پیدا ہونے والے شکوک واعتراضات کا جواب دیا جائے تاکہ ایسے فتنوں کا رد کرنے سے یا تو فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے یا لوگ مکمل طور پر مطمئن ہو جائیں۔
سب سے پہلے یہ کہ مسلمان عورتوں کو تو اس طرح کا سوال کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ جب وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ چکی ہیں تو اب انہیں اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم رحمتوں سے بھرا ہے۔ ہماری سمجھ اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہمارا رب جب بھی ہمیں کوئی حکم دیتا ہے تو اسے اس کی تمام باریکیوں کا پہلے ہی سے علم ہوتا ہے۔
اللہ پاک خود ارشاد فرماتا ہے:
اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ [الملك: 14]
ترجمہ کنز الایمان: کیا وہ نہ جانے جس نے پیدا کیا، اور وہی ہے ہر باریکی جانتا، خبردار۔
اسلام میں عورت کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے، اس کی چند وجوہات ہیں جنہیں اسلامی فقہ (Islamic Jurisprudence) اور معاشرتی اقدار (Social Values) میں بیان کیا گیا ہے۔ معترضین کے لیے چند عقلی وجوہات یہاں پیش کی جاتی ہیں:
نسب کی شناخت (Lineage Identification):
عورت کو ایک ساتھ چار شادیوں کی اجازت نہ دینے کی ایک وجہ نسب کا بگڑنا ہے، جو کہ بذاتِ خود کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسلامی اور معاشرتی قوانین میں اولاد کے نسب کا مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس عورت کے چار شوہر ہوں، پھر ایک بچہ پیدا ہو تو بجا طور پر سوال پیدا ہوگا کہ یہ بچہ کس کا ہے؟ ابوّت کی نسبت کس کی طرف کی جائے؟ نسب کی شناخت (Lineage Identification) دشوار ہو جائے گی۔ بچے کے حقیقی والد کا تعین مشکل ہو جائے گا، جس سے نسب کا تعین پیچیدہ ہو جائے گا۔ باپ کا پتا نہ چل پانا اس بچے کے لیے باعثِ شرم وعار ہوگا۔
سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے زمانے میں کچھ عورتوں نے اتفاق کر کے چار چرب زبان عورتوں کا اپنا نمائندہ منتخب کیا کہ وہ جا کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے دریافت کریں کہ امیر المومنین! جب ایک وقت میں ایک مرد چار عورتیں رکھ سکتا ہے تو ایک عورت چار مرد کیوں نہیں رکھ سکتی؟ اسلام ایک عادل مذہب ہے، کیا عورتوں پر ظلم نہیں کرتا؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ان کی شرارت کو بھانپ لیا اور زبانی کلامی جواب دینے کے بجائے ایک صاف شیشی منگوائی اور چار عورتوں کو الگ الگ پانی دے کر فرمایا: اپنا اپنا پانی اس میں ڈالو۔ جب وہ حکم مان چکیں اور پانی ڈال دیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: اپنا اپنا پانی پہچانو۔ انہوں نے اچنبے سے کہا: یا امیر المومنین! پانی کی ہیئت (Delegation) تو ایک ہی طرح ہے اور اس کی ماہیت (Nature) بھی ایک، تو اس کا پہچاننا کیوں کر ممکن ہوگا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پس یہی ٹھہر جاؤ، مادہ منویہ (Substance) کی ہیئت بھی ایک ہی طرح کی ہوتی ہے اور اس کی ماہیئت بھی۔ ایسا نہیں ہے کہ کالے مرد کا مادہ تولید کالا اور گورے مرد کا مادہ سفید ہو۔ جس طرح ایک شیشی میں اپنے اپنے پانیوں کی شناخت کرنا محال ہے، اسی طرح جب ایک رحم (Uterus) کے اندر متعدد آدمیوں کی منی (Sperm) جمع ہوگی، جس سے استقراء حمل ہوگا، پھر جب بچہ پیدا ہوگا تو اس کی پہچان بھی ناممکن اور اس کی نسبت کا تعین محال (Impossible) ہو جائے گا۔ بات معقول تھی تو سب عورتوں کی سمجھ میں آ گئی اور وہ خوش خوش لوٹ گئیں۔
پرورش اور تعلیم وتربیت کا ذمہ:
جب بچے کے باپ کی شناخت ہی نہیں ہو سکے گی تو کون اس کی کفالت کرے گا؟ اس بچے کے اخراجات کی ذمہ داری کس کے ذمے آئے گی؟ یہاں سوال بچے کے اخراجات اور پرورش کا ہے تو اب ہر شوہر اس بچے کو اپنا بتانے سے انکار کرے گا۔ اب یہاں نقصان یا تو اس عورت کا ہوگا کہ وہ کس طرح اس بچے کی پرورش کرے گی، یا اس بچے کا ہوگا، جسے نہ تو باپ کا نام ہی ملے گا، نہ باپ کی محبت وشفقت، اور نہ تعلیم وتربیت کے لیے کوئی رقم حاصل ہو سکے گی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اگر عورت کو چار شادیوں کی اجازت دے دی جائے تو عورت اور بچے کا کیا حال ہوگا اور ایسے ہولناک نتائج ہی سامنے آئیں گے، جو ہلاکت کا سبب بنیں گے۔
نفسانی استحکام:
عورت فطری طور پر مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے اور عورت میں اتنی طاقت وقوت نہیں ہوتی کہ وہ تنہا اپنے نفس کے ذریعے سے چند مردوں کی خواہشات پوری کر سکے۔ عورت کے اندر اگرچہ خواہشِ نفسانی مرد سے زائد ہو، لیکن وہ بوقتِ ضرورت اس خواہش کو کنٹرول کرنے کی طاقت وہمت مرد سے زیادہ رکھتی ہے، باخلاف مرد کے کہ وہ بے حوصلہ ہے اور اپنی خواہشات پر قابو نہیں کر سکتا۔ شرعی حدود اور ملامت کی پروا کیے بغیر وہ حرام کاریوں کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کر لیتا ہے۔ اس کے پیشِ نظر مرد کے نکاح میں ایک سے زائد بیویاں ہونا تقریباً ہر مذہب میں رائج ہے، لیکن کسی عورت کے لیے چند مردوں سے مجامعت کے جواز کو حلال قرار دے دینا مطلب عورت کو کئی مردوں کے حوالے کر کے اس کے رحم وکرم اور اس کی جان پر ظلم کرنا ہوا۔ اس لیے کسی بھی تہذیب اور مذہب نے ایک عورت کو کئی خاوند رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
آپسی انتشار:
مرد کیونکہ اپنی خواہشات پر قابو پانے میں عاجز ہے اور جب عورت ایک اور مرد ایک سے زائد ہوں تو ہر مرد یہی چاہے گا کہ وہی اس عورت سے استفادہ حاصل کرے۔ ایسے حالات میں لڑائی جھگڑے اور خونریزی والے میدان کا ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ ہر مذہب امن وسلامتی ہی کو پسند کرتا ہے۔ جب بیوی کے اخراجات، اس کے رہنے سہنے، کھانے پینے کا معاملہ آئے گا تو وہی شوہر جو کل بیوی سے استفادے کے لیے جھگڑ رہے تھے، آج بیوی کے اخراجات پر محض یہ بول کر جان چھڑانا چاہیں گے کہ یہ صرف میری بیوی نہیں۔ تو ہر طرف سے نقصان صرف عورت کا ہی ہوگا، اور جھگڑے کا باعث بنے گا، اور معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔
ماں کے کردار کی ذمہ داری:
ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں عورت پر زیادہ ذمہ داریاں اور تعلقات کا دباؤ ہوگا۔ یہ صورتِ حال ماں کے کردار کی بنیادی ذمہ داری کو متاثر کر سکتی ہے اور بچوں کی پرورش اور ان کی جذباتی واخلاقی تربیت میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ایک مستحکم ازدواجی ماحول بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ جب عورت کے اوپر ایک ساتھ کئی شوہر، ساتھ ہی امورِ خانہ داری کی ذمہ داریاں جمع ہو جائیں گی، تو اولاد کی صحیح پرورش کرنا دشوار مرحلہ بن جائے گا۔
خاندان میں استحکام:
معاشرتی نظام میں خاندان کی بنیاد کو مضبوط رکھنے کے لیے مستحکم ازدواجی تعلقات (Marital Relations) ضروری ہیں۔ ایک شوہر اور ایک بیوی کے تعلقات سے خاندان میں اتحاد اور سکون قائم رہتا ہے، جبکہ ایک عورت کے ایک وقت میں چار شوہر ہونے سے ازدواجی تعلقات میں تناؤ اور انتشار کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر عورت ایک ساتھ کئی مرد سے نکاح کرے، پھر وہ مرد بھی ایک سے زائد بیویاں رکھیں، تو اس طرح سب خلط ملط ہو جائے گا، زندگی گزارنا محال ہوگا، اور خاندانی نظام میں بگاڑ پیدا ہوگا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ مذہبِ اسلام نے اپنے ماننے والوں کی ہر قدم پر رہنمائی فرمائی اور ملحدین ومستشرقین اور معترضین کا دندان شکن جواب دیا۔ جیسا کہ ہماری مختصر تحریر سے بھی ثابت ہے کہ عورت کے لیے ایک سے زائد شادی کرنے میں مذہبی ومعاشرتی کتنی خرابیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ کسی ذی شعور پر مخفی نہیں۔