✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

ڈاکٹر مسیحا یا درندہ؟

عنوان: ڈاکٹر مسیحا یا درندہ؟
تحریر: ابو حامد مصباحی

شافی درحقیقت اللہ عزوجل ہے، اور شفا اسی کے حکم سے ہے۔ بغیر اس کی مرضی کے نہ کوئی دعا کارآمد ہوسکتی ہے، نہ کوئی دوا سببِ شفا بن سکتی ہے۔ اللہ پاک نے حصولِ شفا کے ظاہری اسباب میں دعا اور دوا دونوں کو رکھا ہے، اور اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے۔ اسی لیے بندوں پر ضروری ہے کہ جب انھیں کوئی تکلیف لاحق ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں، بلکہ مسبّب الاسباب پر توکل و یقین رکھتے ہوئے، اظہارِ بندگی کرتے ہوئے، اسباب اختیار کریں۔ پھر بحکمِ الٰہی جو کچھ ان کے مقدر میں ہوگا، وہ انھیں میسر آجائے گا۔

چوں کہ دوا حصولِ شفا کے ظاہری اسباب میں ایک عظیم سبب ہے، اور اس میں دوا تجویز کرنے والی شخصیت، جسے طبیب یا ڈاکٹر کہا جاتا ہے، کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے۔ جب جسمِ انسانی ارضی و سماوی آفات کا شکار ہوتا ہے تو اس علاج کے لیے اسی مسیحا سے دستگیری کی دہائی دی جاتی ہے۔ لوگ اپنی استطاعت اور مالی حیثیت کے مطابق مسیحا کا انتخاب کرتے ہیں، اور اپنے مصائب و آلام سے چھٹکارے کا سامان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مریض اور اس کے اہلِ خانہ کی ڈھارس بندھاتا ہے، پر امید رہنے کی تلقین کرتا ہے، اور پھر اپنے تجربات اور معلومات کی بنیاد پر اپنی خدمت انجام دیتا ہے اور کامیاب علاج فراہم کرکے، وہ خود سے خیر کی امید رکھنے والوں کا اعتماد جیت لیتا ہے۔ ڈاکٹروں اور اطباء میں کثیر ایسے ہوتے ہیں جو نہایت رحم دل، ہمدرد، خوش مزاج اور ماہرِ نفسیات ہوتے ہیں، جو اپنی تجویز کردہ دواؤں سے زیادہ، اپنے اخلاق و کردار سے مریض کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

مگر اس مسیحانہ تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، جو آج کل کے ہاسپٹلز میں بکثرت نظر آرہا ہے۔ خاص طور پر بڑے ہاسپٹلز اور اُن ڈاکٹروں کی جانب سے، جن کا نام اور مقام مشہور و معروف ہوچکا ہو۔ ان میں بعض وہی "مسیحا" کہلانے والے افراد انتہائی بدخلق، ترش رو، سخت مزاج، سنگ دل اور بے رحم ہوتے ہیں۔ بسا اوقات زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا شخص اور اس کے اہلِ خانہ سے نہ صرف بدتمیزی سے بات کرتے ہیں، بلکہ غریبوں کو تو منہ بھی نہیں لگاتے۔ یہاں تک کہ مریض ان کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتے ہیں، مگر وہ پیسوں کی ہوس میں انتہائی درندگی اور سنگ دلی کا مظاہرہ رہے ہوتے یں، اور لوگوں کو موت کے گھاٹ اترتا ہوا برداشت کر لیتے ہیں۔ ان کا کردار مسیحا کے بجائے ایک بے رحم تاجر کی مانند ہوتا ہے، جو مریضوں کو صرف مالی نفع و نقصان کی نظر سے دیکھتا ہے۔

یہ درندگی یہیں پر محدود نہیں رہتی۔ بہت سے سخت زخمی، بیمار اور قریب المرگ مریضوں پر وحشیانہ نظر رکھی جاتی ہے، دانستہ طور پر ان کے علاج میں کوتاہی برتی جاتی ہے، یا دورانِ علاج ان کی موت کے بعد ان کے جسم سے گردے، آنکھیں اور دیگر اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔

اور اس کی انتہا اُس وقت ہو جاتی ہے، جب اچھے بھلے، ہلکی پھلکی تکلیف یا درد و الم والے مریضوں کو عمداً دردناک موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہ سب کچھ مال و دولت کی ہوس کے تحت انجام دیا جاتا ہے تاکہ ناپائیدار مال و دولت کا ذخیرہ کیا جا سکے۔ گزشتہ دنوں عالمی وبا کورونا وائرس کے زمانے میں اس کے متعدد واقعات سامنے آئے۔ کسی کو معمولی نزلہ و زکام ہوا، ہاسپٹل لے جایا گیا، تو کورونا پازیٹو بتایا گیا۔ پھر کورونا کے علاج کے دوران چند گھنٹوں یا دنوں بعد اس کے اچانک انتقال کی خبر آئی۔ اور جب میت کا جائزہ لیا گیا تو اعضا نکالے جا چکے تھے۔

ایک صاحب نے بتایا کہ ہمارے ایک مریض کے پیٹ میں درد تھا۔ آرام نہ آیا تو ایک ملنے والے شخص کے ذریعے ایک بڑے ہاسپٹل میں داخل کیا۔ داخل کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد خبر آئی کہ آپ کے مریض کا انتقال ہوگیا ہے، اور میت کو ہاسپٹل کے مخصوص انداز میں لپیٹ کر لواحقین کے حوالے کر دیا گیا۔ غسل کے وقت غسّال نے بتایا کہ میت کا آپریشن کیا گیا ہے، اور صفائی کی غرض سے جب کھال ہٹائی گئی تو پتہ چلا کہ تمام اندرونی اعضا، یہاں تک کہ آنکھیں بھی غائب تھیں۔

اس سنگ دلی کا مظاہرہ صرف یہیں تک محدود نہیں، بلکہ مہنگی فیسیں، دواؤں کا مہنگا بل، غیر ضروری ٹیسٹ، مختلف قسم کے اختراعی چارجز، مہنگے پیکیجز، اور غریب مریضوں کے ساتھ بدکلامی اور تحقیر آمیز رویہ جیسے اعمال آج بعض مسیحا کہلانے والوں کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔

مافوق میں جو کچھ بیان ہوا، اس سے مقصود یہ ہے کہ یہ سنگ دلی ان لوگوں میں بھی پائی جاتی ہے جو مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جب کہ اسلام رحم، ہمدردی، غمخواری، نرمی، خوش اخلاقی، ایثار اور قربانی جیسی اعلیٰ صفات کا درس دیتا ہے، تو مسلمان ڈاکٹروں کے اندر ان صفات کی اضداد کا پایا جانا یقیناً نہایت تشویشناک امر ہے۔

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جن بچوں کو ڈاکٹر بنانے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے، انھیں دین سے بالکل نابلد رکھا جاتا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر ماہرِ طب بننے تک، وہ دینی تعلیمات و اقدار سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہی کچھ ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ اہلِ اسلام اپنے بچوں کو ڈاکٹر ضرور بنائیں، مگر اس سے پہلے انھیں دین کی بنیادی تعلیم ضرور دیں، اور خصوصاً ان کے اندر ان صفات کی دینی انداز میں تربیت ہو، جن کی بنا پر ایک ڈاکٹر کو مسیحا کا لقب دیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمات ان کے جذبات و احساسات کا حصہ بن جائیں، اور جب وہ اپنے فن میں مہارت حاصل کرکے عملی میدان میں قدم رکھیں، تو اسلامی اعلیٰ صفات کے حامل ہوں، اور بالخصوص مسلمانوں اور بالعموم تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے جذبے سے کام کریں۔ پیسہ اور مال و دولت کی ہوس ان کے دل میں نہ ہو۔

اسی طرح علما، دعاۃ اور مبلغین کو چاہیے کہ ڈاکٹروں کے لیے تربیتی سیشن منعقد کریں، جن میں انھیں خیرخواہی، رحم، ایثار، خدمتِ خلق اور خوش اخلاقی جیسی صفات کی تربیت دی جائے، اور ان کے اندر میں اسلامی روح پھونکی جائے۔

اللہ پاک ہمیں تمام خطرناک بیماریوں سے محفوظ فرمائے، اور جو مسلمان بیمار ہیں، انھیں شفاے کامل و عاجل عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں