عنوان: | گجرات اور کثرت مسالہ (spice) |
---|---|
تحریر: | محمد قاسم عطاری |
بعض شہروں اور صوبوں کی کچھ چیزیں اس طرح مشہور ہو جاتی ہیں کہ دل اگرچہ چاہے نہ چاہے، لیکن ہمارا ذہن اس شہر کا نام سنتے ہی اُس چیز کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جیسے: آگرہ کا پیٹھا، بنارس کا پان، حیدرآباد کی بریانی، کولکاتا کا رس گُلا، راجستھان کی دال باٹی۔ اسی طرح اگر کوئی مجھ سے پوچھ لے کہ گجرات کی پہچان کیا ہے، تو میں جھٹ سے کہوں گا: چائے، مہمان نوازی اور مسالہ (Spice)۔
گجرات ایک ذائقے والا صوبہ ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ کھانے کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے دلہن کو بغیر زیور کے۔ بریانی ہو یا چکن رائس، دال ہو یا آلو کی سبزی، یہاں ہر چیز اُس وقت تک ادھوری و نامکمل سمجھی جاتی ہے، جب تک کہ اُس پر مرچ، مصالحوں اور دیگر خوشبودار ساز و سامان کا بھاری بھرکم تاج نہ رکھ دیا جائے۔
چونکہ میرا تعلق صوبہ گجرات کی خوشگوار فضاؤں میں واقع ایک مدرسے سے ہے، اس لیے میرا واسطہ غیر مترقبہ طور پر تو کسی بھی دن، اور خاص طور پر پیر شریف کو، بریانی سے ہوتا رہتا ہے۔ جسے کھاتے وقت زبان کو تو کافی لذت محسوس ہو رہی ہوتی ہے، لیکن بیچاری آنکھوں اور ناک کو کبھی کبھی بریانی کا خراج ادا کرنا پڑ جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بریانی نہیں کھائی بلکہ کوئی جذباتی منظر دیکھ لیا ہو۔
لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ اسی بریانی کے دیوانے پورے شہر میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے مطابق بریانی وہی ہے جو کھانے والے کو دو لقموں کے بعد پانی کی طلب میں مخلص بنا دے، اور تیسرے کے بعد اُس کی زبان دعائیں دینے پر مجبور ہو جائے۔
اور بریانی کا ایک چھوٹا بھائی پلاؤ... اُس کا حال بھی کچھ اسی طرح ہے۔ بظاہر وہ کافی حد تک سنجیدہ، تھوڑا سادہ اور بریانی کی بنسبت نرم مزاج دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی چمچ اس میں ڈالا جائے، تو اندر سے مسالہ اُچھل کر کہتا ہے: "بھائی! ہم بھی گجرات میں بنے ہیں، یوں ہی نہیں چپ رہیں گے۔" پلاؤ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ دیکھنے میں بھولا بھالا لگتا ہے، لیکن ایک لقمہ منہ میں جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چھوٹے بھائی نے بڑی بہن سے مصالحے کی وراثت پانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
گجراتی مسالہ دراصل ایک ایسا لاینحل مسئلہ ہے، جس کے حل میں سبھی حیران و پریشان ہیں۔ ایک سال کے طویل عرصے کی دقتِ نظری کے باوجود بھی میں اس کی اصل تک پہنچنے سے قاصر رہا۔ چونکہ فی الحال میں ایسے روم میں رہائش پذیر ہوں جس کو مطبخ (کچن) سے کافی قربت حاصل ہے، لہٰذا مجھے اس موضوع پر علم کے معاملے میں دوسروں پر جزوی فضیلت حاصل ہے۔
کچن میں اگرچہ سادہ آلو کی بھولی بھالی سبزی تیار ہو رہی ہو، لیکن فقط گجراتی مصالحوں کی برکت سے اسی آلو کی سبزی میں وہ کشش اور کھنچاؤ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب وہ کچن کے راستے سے ہمارے روم میں داخل ہوتی ہے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے لذیذ ترین ڈش بن رہی ہو۔ اور ایک طویل انتظارِ دشوار کے بعد جب وہ ڈش پلیٹ میں آتی ہے، تو گویا آلو زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے: "بھائی صاحب! میں وہی آپ کا پرانا ساتھی سیدھا سادہ آلو ہوں، لیکن بات یہ ہے کہ آج کل گجراتی مصالحوں کی صحبت حاصل ہے!"
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کثرتِ مسالہ صرف کھانوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ گجرات کے مزاج میں بھی شامل ہے۔ یہاں کی گفتگو دلنشین، پُر اثر، پُر وقار اور شیریں ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گجرات والے دل کے بھی بہت ذائقہ دار ہوتے ہیں۔
آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ گجرات کے کھانوں سے اگر کوئی سوال ہے، تو فقط اس بات کا کہ: آخر وہ اتنے لذیذ اور ذائقہ دار کیسے ہوتے ہیں؟ کیونکہ دل، زبان، دماغ اور روح... سب کو مصروف رکھنے والا مسالہ صرف گجرات میں ہی ملتا ہے!
ہدایت: اگر کسی کو مصالحے کے زیادہ استعمال کی وجہ سے پیٹ یا ہاضمے کے مسائل ہوتے ہوں، تو وہ اس سے پرہیز ضرور کرے۔ اللہ پاک ہم تمام کو ہر قسم کی مصیبتوں سے محفوظ فرمائے۔
اس مضمون کا مقصد کسی شخص، طبقے یا صوبے کے لوگوں کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد قارئین کو مضمون نگاری کی طرف راغب کرنا ہے۔ {alertInfo}