عنوان: | خدا چاہتا ہے رضاے محمد |
---|---|
تحریر: | ابو حسان نیاز احمد عطاری |
وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ (الضحى: ۵)
اور یقیناً تمھارا رب تمھیں اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔
سیدُ المحبوبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ محبوبیت کا سب سے نمایاں اور واضح ترین پہلو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک میں جو خواہش پیدا ہوتی ہے، ربِّ کریم اُسے فوراً پورا فرما دیتا ہے۔ گویا یوں کہیے کہ جو آپ چاہتے ہیں، وہی رب چاہتا ہے، وجہ یہ ہے کہ آپ وہی چاہتے ہیں جو رب چاہتا ہے۔
مفتیِ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں:
آپ کا چاہا رب کا چاہا رب کا چاہا آپ کا چاہا
رب سے ایسی چاہت والے تم پر لاکھوں سلام
ربِّ کریم نے آپ کو حوضِ کوثر عطا فرمایا ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
معراج کی سیر کرائی گئی ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
امت پر پچاس نمازیں کم کرکے صرف پانچ فرض کی گئیں ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
غزوۂ بدر میں آسمان سے فرشتے اتارے گئے ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
امت کے گناہ معاف کیے جائیں گے ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
امت پل صراط سے بآسانی گزرے گی ــــــــــ آپ کی رضا کے لیے۔
جب رضائے مصطفیٰ کی بات ہو اور اس آیتِ مبارکہ کا ذکر نہ ہو ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے:
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۪ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔ (البقرۃ: ۱۴۴)
ہم دیکھ رہے ہیں، بار بار تمھارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اُس قبلہ کی طرف جس میں تمھاری خوشی ہے۔ ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجدِ حرام کی طرف۔
ذرا تصور کیجیے! پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے صحابۂ کرام کو نماز پڑھا رہے ہیں، مگر دل میں تمنا ہے کہ رخ کعبۂ مکرمہ کی طرف ہو۔
بار بار آسمان کی جانب نگاہِ ناز اٹھتی ہے کہ رب تعالیٰ کی جانب سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے۔ تبھی آپ کا رب فرماتا ہے:
"اے میرے محبوب! ہم تمھاری نگاہوں کی بے قراری دیکھ رہے ہیں، تم چاہتے ہو کہ قبلہ کعبہ ہو جائے؛ تو جو تم نے چاہا، وہی ہم نے بھی چاہا۔ ابھی اپنا رخ اُس کعبہ کی طرف کر دو جس میں تمھاری رضا ہے۔"
اسی لیے تو اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بار رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:
”ما أرى ربك إلا يُسارِعُ في هواك“
"میں دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں جلدی فرماتا ہے!" (صحیح البخاری: ۴۷۸۸)
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں رقم طراز ہیں:
اللہ پاک نے یوں نہیں فرمایا: "قبلةً أرضاها" (وہ قبلہ جس میں ہماری رضا ہے)، بلکہ فرمایا "قبلةً ترضاها" (وہ قبلہ جس میں تمھاری رضا ہے)۔
گویا رب العالمین فرما رہا ہے:
”يا محمد! كلُّ أحدٍ يطلبُ رضائي، وأنا أطلبُ رضاكَ في الدّارين“ (تفسیر الرازی، تحت الآیۃ: ”قد نری تقلب وجهك“)
اے محبوب! ہر کوئی میری رضا چاہتا ہے اور میں دونوں جہاں میں تمھاری رضا چاہتا ہوں۔
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
تحویلِ قبلہ کیوں ہوا؟ اس کے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں۔ مگر عشق کا انداز کچھ اور ہے!
استاذِ محترم، مربیِ مکرم، مفتی وسیم اکرم مصباحی مد ظلّہ العالی فرماتے ہیں: یہ بھی تو ہونا تھا نا کہ:
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوہ تیرا
یقیناً روحانی طور پر تو سب ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہیں، کہ جو اُن سے دور ہوا، دنیا و آخرت میں مردود ومہجور ہوا۔
لیکن الحمدللہ! ہم ہند کے مسلمانوں کو یہ شرف حاصل کہ ہم ظاہری طور پر بھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہیں۔
کیونکہ روضۂ اقدس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور کعبہ کی جانب ہے جب کہ قدمِ مبارک ہند کی طرف۔
اگر تحویلِ قبلہ نہ ہوتا تو ہمیں یہ سعادت اور قربت میسر نہ ہوتی!