عنوان: | علم کے قدموں میں بادشاہت! |
---|---|
تحریر: | احمد رضا مدنی ، مدرس جامعۃ المدینہ پونچھ |
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت
وقار، اور امت کے لیے ایک درسی پیغام
اسلامی تاریخ کی تابناک شخصیات میں بعض ایسے روشن چراغ بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف دینِ اسلام کی علمی بنیادوں کو استوار کیا، بلکہ سلاطین و عوام، دونوں کے لیے کردار، علم، عدل، اور غیرتِ دینی کا عملی نمونہ بن کر ابھرے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ممتاز شاگرد، قاضی القضاۃ فی الشرق والغرب، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ انہی ہستیوں میں سے ایک ہیں، جن کی زندگی زہد، علم، عدل، اور وقار کی ایک زندہ وتابندہ تصویر تھی۔
آپ کا علم، تقویٰ، اور فقہی بصیرت عباسی خلافت کے ایوانوں تک تسلیم شدہ تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید جیسا علم دوست حکمران بھی آپ کی علمی ودینی عظمت کا دل سے قائل تھا۔ ایک دن خلیفہ نے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے خواہش کی کہ وہ اس کے بیٹے کو فقہ کی تعلیم دینے کے لیے محل میں تشریف لایا کریں۔
یہ وہ مقام تھا جہاں دنیا کے اکثر لوگ جھک جاتے ہیں، مگر امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے جلالِ علم اور غیرتِ دینی نے ایسی عاجزانہ درخواست کو قبول کرنے کے بجائے ایک تاریخی پیغام دیا۔ نہایت سنجیدگی اور وقار کے ساتھ فرمایا:
’’اے خلیفۂ وقت! اگر آپ چاہتے ہیں کہ شہزادہ علم حاصل کرے تو اسے میرے پاس، عام طلبہ کی طرح، آنا ہوگا۔ میں عالم ہوں، عالم کے پاس آیا جاتا ہے؛ عالم کسی کے پاس نہیں جاتا‘‘۔
یہ جواب صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ علم کی عظمت، خودداری، اور عزیمت کا وہ مینار ہے جس کے سائے میں امت صدیوں سے رہنمائی پا رہی ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے دین کے علم کو شاہی دربار سے کئی درجے بالا رکھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اگر شہزادہ خود عالم کے در پر حاضر ہوگا تو نہ صرف علم کی قدر سیکھے گا، بلکہ عاجزی، ادب، اور شعورِ علم بھی اسے نصیب ہوگا۔
خلیفہ ہارون الرشید کو امام کا جواب اتنا پسند آیا کہ اس نے فوراً رضامندی ظاہر کرتے ہوئے بیٹے کو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسِ درس میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ امام کی عظمت کا روشن ثبوت ہے کہ ایک وقت کا سب سے طاقتور حکمران بھی ان کے علم کے سامنے سرنگوں تھا۔
یہ انداز ہمیں بتاتا ہے کہ علم، مال وسلطنت یا حسب ونسب کا تابع نہیں۔ بلکہ علم ہی وہ انمول ہیرا ہے، جس کی روشنی میں تمام دنیوی عظمتیں پھیکی پڑ جاتی ہیں، اور سچا طالبِ علم وہی ہے جو علم کے سامنے عاجزی اختیار کرے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ علماء کا درجہ کسی بادشاہ کے درباری خادم سے کہیں بلند ہے۔ علماءِ حق کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیوی منصب وطاقت کے سامنے اپنے علم اور دین کی حرمت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔
والدین کا کردار: علم واستاد کی حرمت کے نگہبان
اس واقعے میں صرف حکمرانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ والدین کے لیے بھی ایک زبردست پیغام ہے۔ خلیفہ نے نہ صرف اپنے بیٹے کو خود علم کے در پر بھیجا، بلکہ استاد کا ادب بھی کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ کے والدین کو علم واساتذہ کے حوالے سے کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
آج کے دور میں بعض والدین دینی اساتذہ پر تنقید کرتے ہیں، انہیں برا بھلا کہتے ہیں، بچوں کے سامنے ان کی تضحیک کرتے ہیں—یہ سب سنگین اخلاقی اور تربیتی غلطیاں ہیں۔ اس کا نقصان صرف اساتذہ کو نہیں، بلکہ بچوں کو ہوتا ہے، جن کے دلوں سے استاد کا ادب اور علم کی عظمت نکل جاتی ہے۔ وہ علم کو بوجھ اور استاد کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [فاطر، آیت: 28]
(ترجمہ: اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ يُوَقِّرْ كَبِيرَنَا، وَلَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَلَمْ يَعْرِفْ لِعَالِمِنَا حَقَّهُ، فَلَيْسَ مِنَّا [مسند احمد، حدیث: 21415]
ترجمہ: جو ہمارے بڑے کا ادب نہ کرے، چھوٹے پر شفقت نہ کرے، اور ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے، وہ ہم میں سے نہیں۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کے لیے اپنی گفتگو میں وقار، ادب، اور دعاؤں کا جذبہ رکھیں۔ استاد اگر سختی بھی کرے، تو اس میں خیر وحکمت ہوتی ہے، کیونکہ وہ صرف علم نہیں دے رہا، بلکہ دین، کردار، اور تہذیب بھی سکھا رہا ہوتا ہے۔
جب تک معاشرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ جیسے باوقار علماء، اور ہارون الرشید جیسے علم دوست حکمرانوں سے خالی ہوگا، اس وقت تک علم کی صحیح روح دلوں میں زندہ نہیں ہو سکتی۔ علم وہ نور ہے جو جھکنے والے دلوں کو ہی منور کرتا ہے۔ اگر والدین، طلبہ، اور اساتذہ سب علم کو اس کے مقام پر رکھیں، تو یقیناً معاشرے میں وہی روشنی لوٹ آئے گی، جس کی مثال ہمیں امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔
مآخذ وحوالہ جات
یہ تاریخی واقعہ درج ذیل مستند کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:
- الانتقاء فی فضائل الأئمة الثلاثة الفقهاء، امام ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ، ص: 247
- سیر أعلام النبلاء، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ، جلد: 8، ص: 52
- تاریخ بغداد، خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، جلد: 16، ص: 366
- تذکرة الحفاظ، امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ، جلد: 1، ص: 278