✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
اب آپ مضامین کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ 🎧 سن🎧 بھی سکتے ہیں۔ سننے کے لیے بولتے مضامین والے آپشن پر کلک کریں۔

عشر کی اہمیت و فضیلت

عنوان: عشر کی اہمیت و فضیلت
تحریر: محمّد عادل ماتریدی ازہری
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جس نے اپنے ماننے والوں کو کہیں بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ جس نے ہر ایک کے حقوق کی پاسداری رکھی۔ مسلمان کی زندگی میں ہر لمحہ پر رہنمائی فرمائی ہے۔

اسلامی ریاست، معاملات، معاشرت، اخلاقیات، عبادات، ایمانیات۔ معاملات میں زراعت، اجارہ، عاریت، امانت، قرض، وراست،وصیت، ہبہ، رہن مضاربت، شراکت، تجارت کوئی چیز ایسی نہیں اسلام نے جس کے احکام بیان نہ فرما دئے ہوں۔ ان ہی احکامات میں سے ایک حکم عشر ہے۔ اب ہم عشر کی اہمیت و فضیلت و احکام اور اس کے کچھ مسائل بیان کرتے ہیں۔

عشر کی تعریف: عُشر دسویں حصہ کو کہتے ہیں جو زرعی پیداوار پر لیا جاتا ہے اور نصف عُشر یعنی بیسواں حصہ بھی اس اطلاق میں شامل ہے۔ دراصل عُشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ یَوْمَ حَصَادِهٖ (الانعام: 141)

ترجمہ کنزالایمان: کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔

قرآن کریم میں ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪ (البقرة: 278)

ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا۔

آیت «اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ» سے ایک مسئلہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے: زمین کی پیداوار سے بھی راہِ خدا میں دیا جائے خواہ وہ غلے ہوں یا پھل نیز پیداوار کم ہو یا زیادہ بہر صورت دیا جائے۔ (تفسیر صراط الجنان)

حدیث شریف میں ہے: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فِیمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُیُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِیًّا الْعُشْرُ؛ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ (صحیح بخاری، کتاب الزکاة، صفحہ:300، حدیث:1483، دارالفکر، بیروت)

ترجمہ: جس زمین کو آسمان یا چشموں نے سیراب کیا یا عشری ہو یعنی نہر کے پانی سے اسے سیراب کرتے ہوں ، اُس میں عشر ہے اور جس زمین کے سیراب کرنے کے لیے جانور پر پانی لاد کر لاتے ہوں ، اُس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ۔

حدیث شریف میں ہے:

في كل شيئ أخرجت الأرض العشر أو نصف العشر. (کنزالعمال، کتاب الزکاۃ، صفحہ: 327، الحدیث :15877، جلد:6، مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: ابن نجار انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کہ ہر اُس شے میں جسے زمین نے نکالا، عشر یا نصف عشر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ۔ (صحیح بخاری، کتاب الزکاۃ، صفحہ:361، 362، حدیث:1483، دار الفکر بیروت)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا: جس زمین کو بارش نے سیراب کیا، اور چشموں نے سیراب کیا، یا زمین نے خود رگوں سے پانی لے لیا، اس میں عشر ہے اور جس زمین کو کنویں کی ڈول سے سیراب کیا گیا، اس میں نصف (پیداوار کابیسواں حصہ) عشر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، وَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَمَا سُقِيَ بَعْلاً الْعُشْرَ، وَمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ. (سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، صف: 197، حدیث:1818، بیت الافکار الدولییہ، ریاض)

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے یمن بھیجا، آپ ﷺ نے مجھے ہدایت کی کہ جو زمین آسمان سے سیراب ہوتی ہے اور جسے زمین (میں موجود پانی سے) سیراب کیا جاتا ہے اس میں عشر وصول کروں اور جسے ڈولوں (یعنی مصنوعی طریقے) کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس میں نصف عشر وصول کروں۔

مسئلہ: جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو، وہاں کے لوگ بطورِ خود فقرا وغیرہ جو مصارفِ خراج ہیں، اُن پر صرف کریں۔

مسئلہ: عشر واجب ہونے کے لیے عاقل، بالغ ہونا شرط نہیں ، مجنون اور نابالغ کی زمین میں جو کچھ پیدا ہوا اس میں بھی عشر واجب ہے۔

مسئلہ: عشر میں سال گزرنا بھی شرط نہیں، بلکہ سال میں چند بار ایک کھیت میں زراعت ہوئی تو ہر بار عشر واجب ہے۔

مسئلہ: اس میں نصاب بھی شرط نہیں، ایک صاع بھی پیداوار ہو تو عشر واجب ہے اور یہ شرط بھی نہیں کہ وہ چیز باقی رہنے والی ہو اور یہ شرط بھی نہیں کہ کاشتکار زمین کا مالک ہو یہاں تک کہ مکاتب و ماذون نے کاشت کی تو اس پیداوار پر بھی عشر واجب ہے، بلکہ وقفی زمین میں زراعت ہوئی تو اس پر بھی عشر واجب ہے، خواہ زراعت کرنے والے اہلِ وقف ہوں یا اُجرت۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں