عنوان: | خاموشی میں بھلائی ہے |
---|---|
تحریر: | شگفتہ فاطمہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
زبان، اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے۔ قیامت کے دن اس کے متعلق بھی سوال ہوگا۔ زبان کا صحیح استعمال انسان کو جنت کا حق دار بناتا ہے، جبکہ اس کا غلط استعمال جہنم کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے انسان کو غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور خاموشی اختیار کرنی چاہیے، کیوں کہ جب انسان خاموش رہتا ہے تو وہ بہت سی مصیبتوں سے بچا رہتا ہے۔
حدیثِ مبارکہ میں خاموشی کو نجات اور بہترین اخلاق قرار دیا گیا ہے:
مَن صَمَتَ نَجَا (الترمذی: ۲۵۰۹)
ترجمہ: جو چپ رہا، اس نے نجات پائی۔
الصَّمْتُ سَیِّدُ الْأَخْلَاقِ (حلیة الأولیاء، ابو نعیم الاصفہانی، جلد ۸، صفحہ ۱۳۸)
ترجمہ: خاموشی اخلاق کی سردار ہے۔
خاموشی نجات کا ذریعہ ہے۔ جب انسان شدید غصے میں ہوتا ہے، تو خاموشی اُسے جھگڑے اور بڑے نقصان سے بچا لیتی ہے۔ خاموشی انسان کو بے صبری اور بے فائدہ گفتگو سے محفوظ رکھتی ہے۔ بعض اوقات انسان نادانی میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جن سے رشتے خراب ہو جاتے ہیں، لیکن خاموشی ایسی تمام خرابیوں سے بچا لیتی ہے۔
احمق اپنی بات سے، اور عقل مند اپنی خاموشی سے پہچانا جاتا ہے۔ دانش مند انسان جانتا ہے کہ اسے کب اور کہاں بولنا ہے، اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے میں عزت و وقار پاتے ہیں، جب کہ فضول گوئی کرنے والے لوگ بدنامی اور ندامت کا شکار ہوتے ہیں۔
قرآنِ پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ (ق: ۱۸)
ترجمہ کنزالایمان: وہ کوئی بات زبان سے نہیں نکالتا، مگر اس کے پاس ایک نگران موجود ہوتا ہے، جو اسے لکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
فضول گفتگو اعمال لکھنے والے فرشتوں، یعنی کرامًا کاتبین، کو لکھنی پڑتی ہے۔ انسان کو ان سے شرم کرتے ہوئے فضول باتوں سے بچنا چاہیے، ورنہ قیامت کے دن جب نامۂ اعمال اللہ عزّوجل کی بارگاہ میں پیش ہوگا، اور ربِّ کائنات تمام مخلوق کے سامنے حکم دے گا کہ:
اقْرَأْ كِتَابَكَ ۚكَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (الإسراء:۱۴)
ترجمہ کنز الایمان: اپنا نامۂ اعمال پڑھ لے، آج تو خود ہی اپنے اوپر حساب لینے کے لیے کافی ہے۔
تو اس وقت ہمارا کیا بنے گا؟ اگر ہم نے دنیا میں اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا، تو ہمارے اعمال میں فضول باتوں کا انبار ہوگا۔ ایسی صورت میں ہم کیسے اللہ کے حضور سرخرو ہو سکیں گے؟
آج کل لوگ اپنی زبان کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اپنی زبان سے کسی کے درمیان جھگڑا کروا رہے ہیں، کسی کو تکلیف پہنچا رہے ہیں، کسی کی عزت اچھال رہے ہیں، یا کسی کا دل دکھا رہے ہیں۔ انہیں مذکورہ قرآنِ کریم کی اس آیت کو یاد کرنا چاہیے، کہ جب اس کے ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا، اور اسے پڑھنے کا حکم ہوگا۔
لوگ نفسی نفسی کے عالم میں ہوں گے، سورج سر کے قریب ہوگا، گرمی کے سبب لوگ پسینے میں ڈوب رہے ہوں گے، ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا، اور کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہوگا۔ تو اس وقت ہم اپنی فضول گوئی سے بھرا اعمال كيسے سنا سکین گے۔
لہٰذا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی گفتگو پر قابو رکھے، اور صرف وہی بات کہے جو فائدہ مند ہو۔ ہمیشہ بات کرنے سے پہلے اسے تولے کہ وہ جو کہنے جا رہا ہے، اس سے کسی کو فائدہ ہے یا نہیں۔ اگر بات مناسب اور مفید ہو تو کہے، ورنہ خاموشی اختیار کرے، کیونکہ بعض اوقات خاموشی ہی سب سے بڑی دانائی ہوتی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے: لفظوں کے دانت نہیں ہوتے، پھر بھی کاٹتے ہیں؛ اس لیے پہلے تولو، پھر بولو! ایک چپ، سو سکھ۔۔۔۔۔