عنوان: | خاموش سچائیاں |
---|---|
تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں زبان نہیں ملتی۔ اگر وہ بول پڑیں تو رشتے ٹوٹ جائیں، دل زخمی ہو جائے یا پھر معاشرہ اُسے برداشت نہ کر سکے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہیں، لیکن وہ ان باتوں کو دنیا سے چھپا کر رکھتا ہے۔ ان سچائیوں کا وزن اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات انسان مسکرا کر بھی رو رہا ہوتا ہے۔
یہی خاموش سچائیاں ہر انسان کے دل میں کسی نہ کسی صورت زندہ ہوتی ہیں، جنہیں وہ کہنے سے ڈرتا ہے۔ انسان دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی ذات کی قربانی دیتا ہے۔ اپنی خواہشات، خواب یا دُکھ کو صرف دل میں چھپا لیتا ہے کیوں کہ معاشرہ اُسے سچ بولنے کی اجازت نہیں دیتا۔ سچ بولنا بعض اوقات جرم بن جاتا ہے۔
ہر انسان، چاہے وہ ماں ہو یا باپ، بہن ہو یا بیوی، یا شوہر۔سب کے دل میں کچھ نہ کچھ چھپا ہوتا ہے، جو وہ کبھی سماج یا اپنوں کے سامنے کہہ نہیں پاتا۔ خاموشی کی زبان، بے غیر اظہار کے بھی بہت کچھ کہتی ہے۔ آنکھوں کی نمی، چہرے کا سکوت، اچانک بدلا ہوا رویہ۔یہ سب خاموش سچائیاں ہیں۔
خاموش سچائیاں انسان کو گہرا، سمجھ دار اور حساس بناتی ہیں۔ کبھی کبھی چپ رہنا ہی سب سے بڑی سمجھداری ہوتی ہے۔ ہر انسان کے دل میں کچھ ایسی باتیں ہوتی ہیں، جو وقت، حالات یا سماج کی وجہ سے کہی نہیں جاتیں یا انسان کہہ نہیں پاتا۔
ان خاموش سچائیوں کو پہچاننا، سمجھنا اور سننا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔