دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

اخلاق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت

اخلاق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت
عنوان: اخلاق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت
تحریر: ابو تراب الحق شاہ محمد ریاض الحق علوی قادری

تیرے خلق کو حق نے عظیم کہا
تیری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا
تیرے خالق حسن و ادا کی قسم

(اعلی حضرت محدث بریلی علیہ الرحمہ)

محترم قارئین کرام! اللہ تبارک و تعالی نے اپنے محبوب کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ہیں چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ [الکوثر: 1]

ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔

تمام خوبیوں میں ایک بڑی عظیم خوبی یہ عطا فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خلق عظیم عطا فرمایا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خلق عظیم ہی تھا کہ جس کی بدولت غیر بھی آپ کو امین اور صادق کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کے بدولت ہی لوگ جوق در جوق حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ اور یہ بھی حسن اخلاق ہی کی برکت تھی کہ جو ایک بار نبی کریم رءوف ورحیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی صحبتِ با برکت کو پا لیتا تو پھر اس کے دل کو کوئی اور نہ بھاتا، گویا کہ وہ اپنی زبان حال سے یہ کہتا:

اب میری نگاہوں میں ججتا نہیں کوئی
جیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی

(خالد محمود خالد)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہی تھا کہ جسے دیکھ کر بچے، بوڑھے، جوان، مرد و عورت سب آپ پر اپنی جانوں کو نچھاور کرتے، آپ کے قدموں میں اپنے سروں کا نذرانہ پیش کرتے اور صرف اپنی جان ہی نہیں بلکہ یوں کہا کرتے ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فداک امی و ابی“ یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماں باپ بھی آپ پر قربان۔ گو یا کہ عشق و مستی میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے:

کروں تیرے نام پر جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

(اعلی حضرت محدث بریلی علیہ الرحمہ)

بہرحال اشاعت دین میں، تبلیغ اسلام میں، معاشرے میں پھیلی بری رسم و رواج کو جڑ سے ختم کرنے میں، گھریلو جھگڑے، آپسی نا چاقیوں، بد اخلاقیوں، بد اعمالیوں، الغرض ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی برائیوں اور خرابیوں کو نیست و نابود کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حسن اخلاق کو پیش پیش رکھا ہے۔

اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کی اہمیت کو کس طرح اجاگر فرمایا۔

چنانچہ حسن اخلاق کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

حسن خلق یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو۔ [مکارم الاخلاق (ترجمہ حسن اخلاق)، ص: 6]

اور یہ بھی ارشاد فرمایا:

بےشک! بندہ حسن اخلاق کے ذریعے دن میں روزہ رکھنے اور رات میں قیام کرنے والوں کے درجے کو پا لیتا ہے۔ [حسن اخلاق، ص: 16]

سبحان اللہ سبحان اللہ! کیا کریمانہ انداز ہے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ کس طرح اپنی امت کو حسن اخلاق کی فضیلت بتا رہے ہیں اور اس پر عمل کی ترغیب دلا رہے ہیں اور عمل کرنے پر ثواب و اجر کی بشارت بھی دے رہے ہیں۔

لیکن افسوس صد افسوس! امت مسلمہ خواب غفلت میں ہے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو فراموش کر کے مغربی تہذیب و تمدن کو اپنا کر برائی و خرابی کے سمندر میں غرق ہے۔

البتہ گر آج بھی امت مسلمہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر عمل پیرا ہو جائے تو کامیابی دنیا و آخرت میں حاصل ہو جائے۔

اگر سماج کو نیک بنانا ہے، معاشرے سے برائی کو ختم کرنا ہے، تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔

ہمارے حسن اخلاق کے حقدار سب سے زیادہ ہمارے گھر والے ہیں لہذا آئیے جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق اپنے گھر والوں کے ساتھ کیسا تھا۔

چنانچہ سیرت نگاروں نے لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر سب سے زیادہ نرم مزاج رکھتے اور گھر والوں سے بڑی محبت فرماتے، نیز گھر والوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے اور خوش طبعی فرماتے اور گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، جیسے اپنے کپڑوں میں پیوند لگانا، اپنی نعلین کی مرمت کرنا وغیرہ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی ازواج مطہرات پر ہاتھ نہ اٹھاتے اور نہ ہی کبھی ان سے سخت کلامی فرماتے بلکہ اپنی ازواج مطہرات سے بڑے احسن انداز میں گفتگو فرماتے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کے مشورے بھی قبول فرماتے۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن معاشرت پر حضرت علامہ الحاج عبد المصطفی اعظمی رحمة اللہ علیہ کی مایہ ناز تصنیف ”کتاب سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ازواج مطہرات، اپنے احباب، اپنے اصحاب، اپنے رشتے داروں، اپنے پڑوسیوں، ہر ایک کے ساتھ اتنی خوش اخلاقی اور ملنساری کا برتاؤ فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک آپ کے اخلاق حسنہ کا گرویدہ اور مداح تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے کوئی مخصوص بستر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ ازواج مطہرات کے بستروں ہی پر آرام فرماتے تھے اور اپنے پیار و محبت سے ہمیشہ اپنی مقدس بیویوں کو خوش رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ اپنی ازواج مطہرات سے ملاقات فرماتے اور اپنی صاحبزادیوں کے گھروں پر بھی رونق افروز ہو کر ان کی خبرگیری فرماتے اور اپنے نواسوں اور نواسیوں کو بھی اپنے پیار و شفقت سے بار بار نوازتے اور سب کی دل جوئی و دلداری فرماتے اور بچوں سے بھی گفتگو فرما کر ان کی بات چیت سے اپنا دل خوش کرتے اور ان کا بھی دل بہلاتے اپنے پڑوسیوں کی بھی خبر گیری اور ان کے ساتھ انتہائی کریمانہ اور مشفقانہ برتاؤ فرماتے۔

الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل اور اپنے سیرت مقدسہ سے ایسے اسلامی معاشرہ کی تکمیل فرمائی کہ اگر آج دنیا آپ کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے لگے تو تمام دنیا میں امن و سکون اور محبت و رحمت کا دریا بہنے لگے اور سارے عالم سے جدال و قتال اور نفاق و شقاق کا جہنم بجھ جائے اور عالم کائنات امن و راحت اور پیار و محبت کی بہشت بن جائے۔ [سیرت مصطفی، ص: 448 تا 450، مطبوعہ مشاہد بکڈپو کلکتہ]

بہر کیف اگر آج بھی ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس انداز کو اپنا لیں تو بالیقین ہمارا گھر جنت کا گہوارہ بن جائے گا۔ اور پھر ہمیں گھر کی خوشحالی کے لیے اور اپنے سکون و اطمینان کے لیے، نہ کسی ڈھونگی باباؤں کی، نہ کسی ڈاکٹر کی دوائیوں کی، نہ کسی طبیب کے مشوروں کی، اور نہ ہی کسی فزیشنز کی ضرورت پڑے گی۔

اللہ پاک! ہم سب کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو اپنانے اور نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔