دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

قرض لے کر واپس ادا کرو

قرض لے کر واپس ادا کرو
عنوان: قرض لے کر واپس ادا کرو
تحریر: ارشد رضا مدنی ، ناظم جامعۃ المدینہ لکھنؤ

فی زمانہ امتِ مسلمہ جس قدر ذلت و رسوائی کا شکار ہے، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ گناہوں کی کثرت اور گناہوں کو معمولی سمجھ لینا ہے۔ بعض معاملات تو ایسے ہیں کہ لوگ گناہ کو گناہ بھی تصور نہیں کرتے۔ انہی گناہوں میں ایک سنگین برائی یہ ہے کہ کئی مسلمان دوسروں کا حق کھا لیتے ہیں: قرض لے کر واپس نہ کرنا اور حیلے بہانے تلاشنا۔ اور بعض تو دوستی کا سہارا لے کر کہتے ہیں: ”تم کو مجھ پر بھروسہ نہیں؟ کیسے دوست ہو یار؟“ اور کبھی ضرورت کے بہانے قرض لیا جاتا ہے، مگر جب واپس دینے کا وقت آتا ہے تو انکار کر دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ بہادری دکھاتے ہوئے کہتے ہیں: ”میں نے کچھ نہیں لیا“ یا دعویٰ کرتے ہیں کہ ”کوئی گواہ نہیں ہے“؛ اس طرح حق چھپا لیا جاتا ہے۔ کچھ صورتوں میں ٹال مٹول کیا جاتا ہے۔ بار بار وعدے کیے جاتے ہیں کہ ”ابھی دے دوں گا“ مگر وعدہ خلافی ان کا معمول بن جاتا ہے۔

سیدی اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تین پیسہ دین (قرض) کے عوض (یعنی بدلے) سات سو نمازیں باجماعت (دینی پڑیں گی)۔ جب اس (قرضہ دبا لینے والے) کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی ان (قرض خواہوں) کے گناہ اس (مقروض) کے سر پر رکھے جائیں گے اور آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ [فتاوٰی رضویہ، ج: ۲۵، ص: ۶۹، مُلخصاً]

مت دبا قرضہ کسی کا نابَکار
روئے گا دوزخ میں ورنہ زار زار

اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض لوگ جیتے جی قرض واپس نہ کر کے مر جاتے ہیں، اور مرنے کے بعد ان کے ورثاء بھی قرض ادا کرنے میں غفلت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو پیسے دینے کے بجائے کم قیمت یا پرانی چیزیں تھما دیتے ہیں اور کہتے ہیں ”یہ رکھ لو“۔ جب کہ اصل حق ادا ہونا چاہیے تھا۔ یہ سب صورتیں شرعی طور پر سخت معصیت ہیں۔

الملفوظ میں ہے اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ حضور میرے کچھ روپے ایک شخص پر ہیں وہ نہیں دیتے؟

جواباً ارشاد فرمایا:

اس زمانہ میں قرض دینا اور یہ خیال کرنا کہ وصول ہو جائے گا، ایک مشکل خیال ہے۔ میرے پندرہ سو روپے لوگوں پر قرض ہیں۔ جب قرض دیا، یہ خیال کر لیا کہ دے دے تو خیر ورنہ طلب نہ کروں گا۔ جن صاحبوں نے قرض لیا دینے کا نام نہ لیا {پھر خود ہی فرمایا} جب یوں قرض دیتا ہوں تو ہبہ کیوں نہیں کر دیتا (یعنی تحفہ کیوں نہیں دے دیتا) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث شریف میں ارشاد فرمایا: جب کسی کا دوسرے پر دین (یعنی قرض) ہو اور اس کی میعاد گزر جائے تو ہر روز اسی قدر روپیہ کی خیرات کا ثواب ملتا ہے جتنا دین (یعنی قرض) ہے۔ [شعب الایمان، الحدیث: ۱۱۲۶۱، ج: ۷، ص: ۵۳۸] اس ثواب عظیم کے لیے میں نے قرض دیئے ہبہ نہ کیے کہ پندرہ سو روپے روز میں کہاں سے خیرات کرتا۔

اس لیے مسلمانوں پر لازمی ہے کہ قرض کی ادائیگی میں تاخیر بالکل نہ کریں، اس لیے کہ تاخیر کرنا گناہ اور بندے کی ناراضگی کا سبب ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”مَنْ آذَى مُسْلِمًا فَقَدْ آذَانِيْ وَمَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَى اللَّهَ.“ [المعجم الأوسط، ج: ۴، ص: ۶٠، دار الحرمين - القاهرة]

جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔

یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔

مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلِمًا أَوْ ضَرَّهُ أَوْ مَاكَرَهُ“ [کنز العمال، ج: ۴، ص: ۶۰، رقم الحدیث: ۹۵۰۶، مؤسسة الرسالة]

یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ [فتاوی رضویہ، ج: ۲۴، ص: ۴۲۵-۴۲۶]

اس لیے کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو دھوکا دے۔ بلکہ مسلمان تو کجا جانور کو بھی ناحق تکلیف دینا حلال نہیں۔

چناں چہ حضرت فضیل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے۔ [مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۵۸، ص: ۹۵۰]

اللہ کریم مسلمانوں پر فضل فرمائے اور کار بد سے محفوظ فرمائے آمین

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔