دن
تاریخ
مہینہ
سنہ
اپڈیٹ لوڈ ہو رہی ہے...

نئی نسل اساتذہ کا احترام کیوں نہیں کر رہی؟

نئی نسل اساتذہ کا احترام کیوں نہیں کر رہی؟
عنوان: نئی نسل اساتذہ کا احترام کیوں نہیں کر رہی؟
تحریر: عالمہ مدحت فاطمہ ضیائی گھوسی

کبھی وہ زمانہ تھا جب شاگرد اپنے استاد کے سامنے نظریں جھکاتے تھے، ان کے جوتوں کی دھول کو بھی باعثِ برکت سمجھتے تھے۔ استاد کا ذکر آتا تو دل میں خود بہ خود عزت و توقیر کا احساس جاگ اٹھتا تھا۔ شاگرد جانتا تھا کہ جس کے سامنے وہ بیٹھا ہے، وہ محض ایک معلم نہیں بلکہ کردار کا معمار ہے۔ مگر آج... وہ ادب اور وہ رشتہ کہاں گیا؟ افسوس یہ رشتہ آج اپنی اصل معنویت کھو چکا ہے۔

آج کے بچے استاد کو ”ضرورت“ تو سمجھتے ہیں مگر ”رہبر“ نہیں۔ ان کے دلوں سے ادب، زبانوں سے لحاظ، اور رویوں سے حیا رخصت ہو چکی ہے؛ اس کی سب سے بڑی وجہ گھر کی تربیت میں کمی ہے۔ والدین اپنی مصروفیات میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ بچوں کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ خود بھی موبائل میں مصروف ہوتے ہیں، بچہ روتا ہے تو اسے بھی موبائل دے دیا جاتا ہے، خاموش رہتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ تربیت مکمل ہے۔ یہی خاموشی کل شور بن جاتی ہے گستاخی، بے ادبی اور بدتمیزی کا شور!

جب استاد تنبیہ کرے، تو والدین خود شکایت لے کر اسکول پہنچ جاتے ہیں۔ پھر جب بچہ یہ منظر دیکھتا ہے تو وہ سیکھ لیتا ہے کہ ”استاد کی بات ماننا ضروری نہیں۔“ یہی لمحہ اس کی اخلاقی موت کی ابتدا ہوتا ہے۔ پھر وہ بچہ نہیں رہتا، بلکہ ایک ضدی ذہن بن جاتا ہے جو علم تو حاصل کرتا ہے مگر تربیت نہیں، جو ڈگریاں تو لیتا ہے مگر تہذیب نہیں سیکھتا۔

یاد رکھیے! علم کو نور کہا گیا ہے لیکن علم کبھی ادب کے بغیر روشنی نہیں بن سکتا۔ جس نسل کے ہاتھ میں کتاب ہو مگر دل میں استاد کا احترام نہ ہو، وہ اندھیرے میں ہی رہتی ہے۔ استاد صرف سبق نہیں پڑھاتا، وہ نسلیں بناتا ہے، کردار تراشتا ہے، انسانیت کو سنوارتا ہے۔ اگر اس کی باتوں کا وزن ختم ہو گیا، تو معاشرہ اپنے توازن سے گر جائے گا۔

ہمیں اپنے اسلاف کی زندگیوں سے سبق لینا چاہیے۔ امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا حال دیکھیے: جب تک آپ کے استاد امام حماد رحمة اللہ علیہ زندہ رہے، آپ نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ اللہ اکبر! یہ تھا علم کا ادب، اسی ادب نے امام اعظم کو وہ مقام عطا کیا کہ آج چودہ سو برس بعد بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔

ہمارے پاس اب بھی وقت ہے! اپنے گھروں میں ادب کا چراغ دوبارہ جلائیں، بچوں کو سکھائیں کہ استاد کا درجہ ماں باپ سے کم نہیں۔ اور یہ کہ جس نے استاد کی عزت کی، اس نے اپنے نصیب کو سنوار لیا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اساتذہ کا احترام کرنے، ان کی دعاؤں اور محنتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے، اور اپنی نسلوں کو ادب و تہذیب کی راہ پر گامزن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

جدید تر اس سے پرانی
لباب | مستند مضامین و مقالات
Available
Lubaab
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپنے مضامین بھیجنے لیے ہم سے رابطہ کریں۔