عنوان: | پڑھیں تو سمجھ کو بھی سمجھ آجائے گی |
---|---|
تحریر: | مولانا محمد نظام الدین عطاری مدنی فتحپور |
اللہ عزوجل کا کروڑہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں سمجھ عطا فرمائی، جس کے ذریعے ہم اپنی سمجھ کے مطابق اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آئیے، میں آپ کو ایک سمجھ میں آنے والی بات سمجھاؤں، امید ہے آپ کی سمجھ کو سمجھ آ جائے گی۔ پر میں ابھی تک نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ آپ کو کیا سمجھاؤں، مگر اللہ کریم کا احسان کہ اس نے مجھے سمجھ عطا فرمائی، جس کے ذریعے میں آپ کو سمجھانے میں کامیابی سمجھوں گا۔
ایک واقعہ، جس کو کئی سمجھ داروں نے اپنی کتابوں میں سمجھایا ہے، ان سمجھ داروں کی کتابوں سے جو میں نے سمجھا ہے، اب وہ میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔
ایک بار علی گڑھ یونیورسٹی (جس میں سمجھ داروں کی ایک بڑی تعداد سمجھی جاتی ہے) میں ایک ایسی ناسمجھ بات پیش آئی کہ وہاں کے کئی سمجھ داروں کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی، یعنی ایک ریاضی کا مسئلہ کسی کو بھی سمجھ میں نہ آیا۔ آخر سب کی سمجھ نے یہ سمجھا کہ اس ناسمجھی بات کو سمجھنے کے لیے کسی بڑے سمجھ دار کے پاس سمجھنے چلتے ہیں۔
تو ایک سمجھ دار پروفیسر نے سمجھایا کہ اس ناسمجھ مسئلے کو سمجھنے کے لیے جرمن سمجھ میں آتا ہے۔ تبھی ایک دوسرے سمجھ دار، یعنی سید سلیمان اشرف بہاری نے سمجھایا کہ اس کو سمجھنے کے لیے مجھے جرمن بالکل بھی سمجھ نہیں آتا، بلکہ واقعی اگر آپ اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو چلیے میرے ساتھ اور چلتے ہیں ایسے سمجھ دار کے پاس، جو سب ناسمجھ باتوں کو سمجھ چکا ہے۔ دینی علوم ہوں یا دنیاوی، سب کو سمجھ چکا ہے، بلکہ بہتوں کو سمجھا چکا ہے۔ یعنی سیدِ سمجھ داراں ہیں وہ، اور نام ان کا احمد رضا ہے۔
خود کو زبردستی سمجھ دار سمجھنے والا سمجھا کہ یہ چٹائی پر بیٹھ کر مولویوں کا سمجھانے والا ہمارے اس مشکل اور ناسمجھ مسئلے کو کیا سمجھائے گا؟ انہوں نے کہا: جا کر سمجھنے کی کوشش تو کرو، سمجھ میں نہ آئے تو کہنا۔
خیر! اس پروفیسر نے پریشان کن اور ناسمجھ مسئلہ لے کر سیدِ سمجھ داراں امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جانا ہی مناسب سمجھا، اگرچہ بادلِ نخواستہ ہی۔
بالآخر وہ سمجھ داروں کے مرکز، بریلی شریف میں حاضر ہوا، سیدِ سمجھ داراں سے ملاقات کی اور کہنے لگا: آپ کو ناسمجھ مسئلے کی صورت اتنی جلدی سمجھ میں نہیں آئے گی، تھوڑا وقت لگے گا۔
سیدِ سمجھ داراں فرمانے لگے: ارے! بتاؤ تو سہی، میں بھی تو سمجھوں کہ تمہاری سمجھ میں نہ آنے والا مسئلہ ہے کیا؟
جب اس پروفیسر نے وہ مسئلہ پیش کیا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے چند ہی بآسانی سمجھ میں آنے والے الفاظ میں اس کا حل سمجھا دیا۔
ابھی تک ناسمجھی کے دلدل میں خود پھنسا سمجھنے والا پروفیسر، اب سمجھ آ جانے کی خوشی میں خود کو شاداں و فرحاں سمجھ رہا تھا اور بزبانِ حال یہ دوسروں کو سمجھا رہا تھا کہ اس چٹائی پر بیٹھنے والے کو صرف مولوی نہ سمجھا جائے، بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خود کو بڑے سے بڑا سمجھ دار سمجھنے والا بھی، اس سیدِ سمجھ داراں کے قدم کی خاک کے برابر نہیں۔ میں تو اپنے ناسمجھ مسئلے کو ایسا سمجھ چکا ہوں کہ اب کسی کے سمجھانے کی حاجت ہی نہیں۔
الحمد للہ عزوجل! اسی سیدِ سمجھ داراں، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی سمجھائی ہوئی باتوں کو سمجھ کر، اس ناسمجھ آنے والے دور میں ایک ایسا سمجھ دار عالمِ دین نمودار ہوا، جن کی عطا کردہ مدنی پھولوں کے ذریعے دین و ملت کو نہ سمجھنے والے بھی سمجھ دار بن کر دین و ملت کی خدمت میں لگ گئے۔
میری مراد دین و ملت کے سمجھ دار، ملت کے سمجھ داروں کے وفادار، پیکرِ جمال و وقار، حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ ہیں، جن کی بے مثال کاوشوں کے ذریعے دین و سنیت کی ایک ایسی سمجھ دار تحریک عالمِ وجود میں آئی، جس کی برکت سے ناسمجھ بگڑے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ وہ گونگے بہرے، جن کو سمجھانے کے لیے کوئی سمجھ دار بھی جلدی تیار نہیں ہوتا، وہ بھی بہت کچھ دین و ملت کی سمجھ حاصل کرکے اپنے ہم جنس کو سمجھانے والے بن گئے۔
اللہ عزوجل کی بارگاہِ عالی میں دعا ہے کہ ہماری سمجھ کو بھی اس سیدِ سمجھ داراں کے صدقے کچھ سمجھ مل جائے، تاکہ ہم بھی «فقہ فی الدین» کی سعادت حاصل کر سکیں۔ خیر! اس واقعہ کو سمجھانے میں مجھ ناسمجھ سے کوئی غلطی سمجھی یا ناسمجھی میں ہو گئی ہو، تو توبہ ہی مناسب سمجھتا ہوں۔ اللہ عزوجل مجھے اس سیدِ سمجھ داراں، اعلیٰ حضرت کے ذریعے معاف فرمائے۔
آخر میں، آپ کی سمجھ کے حوالے سے ایک بات کر دوں کہ: اس مقالے میں جتنی بار 'سمجھ' کا لفظ آیا ہے، اتنی مرتبہ درودِ پاک پڑھنا بھی ضرور سمجھ میں آتا ہے۔
لہٰذا زیادہ سمجھنے کے چکر میں مت پڑیے اور سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے درودِ پاک پڑھنے کی سعادت حاصل کیجیے۔ اور ہاں! درود بھی سمجھ کے پڑھیں، تو یہی سمجھ داری ہے۔