عنوان: | مرد کے نکاح ثانی پر اعتراض کیوں؟ |
---|---|
تحریر: | عالیہ فاطمہ انیسی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
اسلام ایک ایسا مکمل اور جامع دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنی روشنی سے منور کرتا ہے۔ اس دین میں صرف عبادات ہی نہیں، بلکہ انسان کے ہر جذبات، تعلقات، خواہشات، کا خیال رکھتے ہوئے تفصیلی نظام موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نکاح کو صرف ایک رسم یا تعلق کا نام نہیں دیا، بلکہ اسے انسان کی فطری ضرورت اور معاشرے کی بقا کا ذریعہ رکھا۔
مرد کی فطرت میں عورت کے مقابلے میں خواہشات زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر وہ ایک بیوی سے اپنی خواہشات کو پورا نہ کر سکے، یا کسی اور وجہ سے دوسری شادی کرنا چاہے تو اسلام نے عدل کے ساتھ چار شادیوں تک کی اجازت دی ہے۔ یہ اجازت کسی ظلم کے لیے نہیں بلکہ فتنہ، گناہ، اور بے راہ روی سے بچانے کے لیے دی گئی ہے۔
قرآنِ کریم میں واضح طور پر ہے:
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَاعَ ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ اَدْنَىٰ اَلَّا تَعُولُوا (النساء: 3)
ترجمہ کنز الایمان: تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں، دو دو اور تین تین اور چار چار۔ پھر اگر ڈرو کہ دو بیویوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیز جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔
آیتِ مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو ایک ساتھ چار شادیاں کرنے کی اجازت شریعتِ مطہرہ کی طرف سے دی گئی ہے جبکہ وہ ساری بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کرے۔ اگر کوئی مرد جائز اور حلال طریقے سے نکاح کرتا ہے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکے، یا کسی عورت کو سہارا دے سکے، تو یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں کارِ ثواب بن جاتا ہے۔
لیکن افسوس! کہ آج کا معاشرہ جو ظاہری جذبات اور خود ساختہ عزت کے خول میں جکڑا ہوا ہے اس شرعی اجازت کو جرم اور دوسری شادی کرنے والے مرد کو مجرم سمجھتا ہے۔ خاص طور پر پہلی بیوی کے لیے یہ بات ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے۔ حالانکہ یہ قرآن و سنت کا کھلا ہوا حکم ہے۔
اکثر عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر ان کے شوہر نے دوسری شادی کی تو گویا ان کی قدر گھٹ گئی، یا ان کی جگہ کوئی اور لے گئی۔ یا ان کے حقوق کی ادائگی نہ ہوگی۔ یہ سوچ، یہ احساس، یہ ردعمل ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے۔ اور کسی مرد کے دوسرے نکاح کرنے کو گویا بہت بڑا جرم سمجھا جانے لگا۔ معاشرہ معیوب سمجھتا یے، جبکہ ایسا سمجھما قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اور اس کے برعکس (illicit relationship) ناجائز تعلّقات کو عام سی بات سمجھ کر قبول کیا جا رہا ہے۔
کیا دوسری شادی کی مخالفت کرنے والی ان خواتین یا معاشرے کے ان لوگوں نے کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی خواہشات کو جائز اور شرعی طریقے سے پورا کرتا ہے، تو یہ زیادہ بہتر ہے یا وہ انہیں چھپ کر، حرام طریقوں سے پوری کرے یہ بہتر ہے؟
جب شریعت نے واضح طور پر مرد کو جائز طور پر ایک ساتھ چار نکاح کے ذریعہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت دے دی ہے، تو پھر آخر ہم کون ہوتے ہیں جو شریعت کے اس حکم کے مقابلے میں اپنی مرضی کو تھوپیں؟
جی ہاں! میں مانتی ہوں، میں بھی ایک لڑکی ہوں، اور ایک لڑکی ہونے کے ناطے میں ایک عورت کے جذبات کو بہتر طریقے سے سمجھتی اور قبول کرتی ہوں۔ ایک عورت کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی اور عورت ذرا بھی اس کی جگہ لے۔
لیکن میں مسلمان بھی ہوں! اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں اپنے ہر جذبات سے پہلے شریعت کو رکھتی ہوں، میں مانتی ہوں کہ شریعت کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے، اور شریعت کی اتباع ہی اصل سعادت ہے۔
یہ بھی یاد رکھیں! مرد کو چار شادیاں ہی کرنا ضروری نہیں، اگر ایک مرد پوری زندگی ایک بیوی کے ساتھ گزار دے تو یہ اس کی وفاداری اور محبت کی اعلیٰ مثال ہے۔ کیوں کہ اس کا گزر بسر اور خواہشات کی تکمیل ایک سے پوری ہو رہی ہے، دوسری کی ضرورت نہیں۔
لیکن اگر وقت ایسا آ جائے کہ مرد اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو نہ رکھ پائے، یا بیوی کسی کمزوری یا مجبوری کی وجہ سے اس کی فطری ضروریات پوری نہ کر سکے، یا کسی بے سہارا عورت کو سہارا ملنے کی گنجائش ہو تو پھر عورت کو قربانی، وسعتِ ظرف اور دینی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسے نازک موقع پر اگر بیوی شریعت کی روشنی میں نرمی اور فہم سے کام لے، تو نہ صرف شوہر گناہ سے بچ جاتا ہے، بلکہ دونوں کا رشتہ بھی عزت و وفاداری کے ساتھ قائم رہتا ہے۔ اور معاشرہ ایک غلط سوچ کے شکار سے بچ جاتا ہے۔