عنوان: | ترقی کے دور میں بے خبری کا المیہ |
---|---|
تحریر: | نور افشاں صدیقی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جسے سائنسی ترقی، برق رفتاری اور معلومات کی فوری رسائی کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ دنیا گویا سمٹ کر ایک چھوٹی سی اسکرین میں قید ہو چکی ہے، جہاں ایک بٹن دبا کر ہم دنیا کے کسی بھی کونے سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ مگر صد افسوس! اس تمام سہولت اور آسانی کے باوجود انسان، انسان سے دور ہو چکا ہے۔ روحانی، جذباتی اور اخلاقی سطح پر ہم ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں۔
یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس دور میں قریبی رشتے صرف کال یا پیغام کی دوری پر ہیں، اسی دور میں ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کی کیفیت، پریشانی اور دل کی حالت سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ یہ ہے ترقی کے دور کا وہ اندھا پہلو بے خبری کا المیہ۔
آج کی بے خبری محض لاپروائی نہیں، بلکہ ایک اجتماعی غفلت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ہم دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے کے لیے سوشل میڈیا پر گھنٹوں صرف کر دیتے ہیں، مگر ان کے دکھوں کو سننے، وقت دینے یا دل جوئی کرنے کا وقت ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم جذباتی طور پر بانجھ ہوتے جا رہے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ افراد تنہائی، اضطراب اور ذہنی دباؤ کی دلدل میں دھنس کر خاموشی سے خود کو دنیا سے کاٹ لیتے ہیں کبھی تنہا رہ کر، اور کبھی مکمل طور پر غائب ہو کر۔ یہ صرف ایک فرد کی گم شدگی نہیں، بلکہ ایک تعلق، ایک احساس اور ایک رشتے کا ٹوٹنا ہوتا ہے۔
یہ المیہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے اور یہ سوال اٹھاتا ہے کیا یہی ترقی ہے؟ کیا ایسی ترقی جس میں انسانیت دم توڑتی جا رہی ہو، جہاں رشتے اسٹیٹس اور تصویروں تک محدود ہو گئے ہوں، اور جہاں دل کے زخم سننے والا کوئی نہ ہو واقعی فخر کی چیز ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید سہولتوں سے فائدہ تو ضرور اٹھائیں، مگر انسانیت، ہمدردی، تعلق اور باہمی احساس کو بھی زندہ رکھیں۔ ترقی کا اصل حسن تبھی ہے جب ہم ایک دوسرے کے دلوں سے جُڑے ہوں، نہ کہ صرف اسکرینوں سے۔ آج ایسا ہی ہورہا ہے کہ لوگ صرف دنیاوی تماشائی بنے ہیں۔ اور اپنے وقت کو ضائع کررہے ہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے وقت کی اہمیت حاصل کرنے والے بندوں میں شامل کرلے۔ آمین یارب العالمین۔