عنوان: | زندگی محبت اور حقیقت |
---|---|
تحریر: | محمد علاؤالدین قادری مصباحی بلرام پور |
آج ہمارے ایک ہم سبق ساتھی کہنے لگے: بھائی! زندگی میں کچھ لوگ ایسے آتے ہیں کہ جاتے ہوئے انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے جانے سے کسی کی زندگی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
میں نے ان سے کہا: بھائی! زندگی کے شب و روز یوں ہی گزرتے رہیں گے، لوگوں کا آنا جانا لگا رہے گا۔ آپ اتنا کیوں ہر کس و ناکس سے مانوس ہو جاتے ہیں کہ ان کے جانے سے مایوس کن حالات پیدا ہوں؟
کہنے لگے: یار! بات یہ نہیں کہ میں مایوس یا پریشان ہوں، دراصل بات یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں کیا کرنا چاہیے؟
میں نے کہا: جو ہوا، اسے تقدیرِ الٰہی سمجھیں اور اپنی تقدیر پر راضی رہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو مزید پریشان ہوں گے اور کچھ نہیں۔
کہنے لگے: آج میں تم سے کچھ اور بات کرنے آیا تھا، اور تم اپنی عادت کے مطابق نصیحتوں کا گلدستہ لیے حاضر ہو۔
میں نے ان سے کہا: ہر بار کی طرح آج بھی معذرت خواہ ہوں، بھائی!
کہنے لگے: ویسے تو آپ کی بات درست ہے۔
میں نے کہا: یہ سب آپ جیسے کرم فرماؤں کا کرم ہے اور کچھ نہیں۔
انھوں نے کہا: اچھا ٹھیک ہے، چلو چائے پینے چلتے ہیں۔
میں نے کہا: عصر کے بعد اس سے زیادہ چاہت مجھے اور کسی چیز کی نہیں ہوتی، لیکن اگر میں کسی وجہ سے چائے نوشی نہ کر سکوں تو پریشان بھی نہیں ہوتا، آپ کی طرح۔
کہنے لگے: میرا مذاق بنا رہے ہو؟
میں نے کہا: مجھ میں اتنی جسارت کہاں کہ میں آپ کا مذاق اڑاؤں! میں تو بس یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ چاہت نہ ملنے پر انسان کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔
القصہ مختصر، چائے نوشی سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر تفریح کی، پھر مغرب کی اذان ہونے لگی۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے اپنے ہاسٹل جانے لگے تو انھوں نے کہا: نمازِ عصر کے بعد ہونے والی گفتگو کے بارے میں کسی سے نہ کہنا۔
اس پر مجھے شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ کا حکمت بھرا یہ قول یاد آ گیا:
خامشی بہ کہ ضمیرِ دلِ خویش
با کسے گفتن و گفتن کہ مگوی
میں نے ان سے کہا: تذکرہ تو ضرور ہوگا، مگر ہاں! آپ کا نام نہیں آئے گا۔
میں نے مڑ کر دیکھا تو ان کے چہرے پر اطمینانِ قلبی کے آثار نمایاں تھے۔
آج کے اس پُر فتن دور میں لوگ ہلکی پھلکی دل لگی کو محبت کا نام دیتے ہیں، پھر نہ ملنے پر خالی پیلی پریشان ہوتے ہیں۔ محبت کے نام پر بے حیائی کرتے ہیں، اپنے آپ کو پریشان کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں، جو اس کے غضب کا سبب بنتی ہے۔
نہ میں اور نہ ہی اسلام محبت کے خلاف ہے، لیکن محبت ہونی تو چاہیے! محبت ایک پاکیزہ شے ہے، جو شیطانی خیالات کے حامل شخص کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ وہ محبت ہی تو ہے جس کی وجہ سے جماعتِ صحابہ ستاروں کی مانند اُفقِ عالم پر جگمگا رہی ہے اور ان کی روشنی سے پورا جہان منور ہے۔
محبت ایک خوش گفتار، خوش مزاج، وفا شعار، پاک باز، رازدار، گویا ایک مؤمن صفت انسان کی متلاشی ہوتی ہے، اور جب وہ مل جاتا ہے تو ایک خوش گوار کائنات معرضِ وجود میں آتی ہے۔
دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں دورِ حاضر کے اس گناہ سے محفوظ رکھے، جسے لوگ محبت کا نام دیتے ہیں۔