✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

سیرتِ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ

عنوان: سیرت حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ
تحریر: محمد کامران رضا گجراتی

دنیا میں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جو اپنے تعارف میں کسی کی محتاج نہیں ہوتیں، بلکہ ان کی ذات، نام اور کام ہی ان کی پہچان و تعارف بن جاتے ہیں۔

انہی شخصیات میں ایک شخصیت وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، جانشینِ حضور مفتی اعظم ہند، قاضی القضاۃ فی الہند، حضور تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی اختر رضا خان قادری رحمۃُ اللہ علیہ کی ہے۔

آپ وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، حضور حجۃ الاسلام کے مظہر، حضور مفتی اعظم ہند کے سچے جانشین اور مفسرِ اعظم ہند کے لختِ جگر ہیں۔ ان عظیم نسبتوں کا فیضان آپ کی شخصیت میں جھلک رہا ہے۔ اب ہم آپ علیہ الرحمہ کی سیرت مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ولادتِ باسعادت:

آپ کی ولادتِ باسعادت کاشانۂ رضا، محلہ سودا گران، بریلی میں 14 ذی قعدہ 1361ھ / 23 نومبر 1942ء بروز منگل ہوئی۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد 1، ص: 28)

اسمِ گرامی:

آپ حضرت مفسرِ اعظم ہند، حضرت علامہ محمد ابراہیم رضا رحمۃُ اللہ علیہ کے فرزندِ ارجمند ہیں۔ دستورِ خاندان کے مطابق آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا۔ چونکہ والدِ ماجد کا نام محمد ابراہیم رضا ہے، اس نسبت سے آپ کا نام اسمعیل رضا تجویز ہوا۔ عرفی نام اختر رضا ہے اور اسی نام سے مشہور ہیں۔ اختر تخلص ہے۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد 1، ص: 28)

شجرۂ نسب:

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نسباً پٹھان، مسلکاً حنفی، مشرباً قادری اور آپ کا مولد بریلی ہے۔ حضور سعید اللہ خان علیہ الرحمہ تک آپ کا نسب کچھ یوں ہے:

محمد اختر رضا خان قادری بن ابراہیم رضا خان جیلانی بن حامد رضا خان قادری رضوی بن امام احمد رضا خان قادری برکاتی بن نقی علی خان قادری بن رضا علی خان قادری بن کاظم علی خان بن محمد اعظم علی خان بن سعادت یار خان بن سعید اللہ خان۔ (تجلیاتِ تاج الشریعہ، ص: 82)

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے 5 بھائی اور 3 بہنیں ہیں۔ دو بھائی آپ سے بڑے ہیں: حضور ریحانِ ملت مولانا ریحان رضا قادری علیہ الرحمہ اور مخدوم تنویر رضا قادری (آپ جذبی کیفیت میں غرق رہتے تھے، مفقود الخبر ہو گئے)۔ اور دو بھائی آپ سے چھوٹے ہیں: مولانا ڈاکٹر قمر رضا قادری اور علامہ منان رضا خان قادری عرف منانی میاں۔

تعلیم و تربیت:

جب حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی عمر شریف چار سال، چار ماہ اور چار دن ہوئی تو آپ کے والدِ ماجد، حضور مفسرِ اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خان جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ نے تقریبِ بسم اللہ خوانی منعقد کی۔ اس تقریبِ سعید میں یادگارِ اعلیٰ حضرت، دارالعلوم منظرِ اسلام کے تمام طلبہ کو دعوت دی گئی۔ بسم اللہ خوانی نانا جان، سرکار مفتی اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ نے ادا کرائی۔

حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ناظرۂ قرآنِ کریم اپنی والدۂ ماجدہ، شہزادیٔ مفتی اعظم ہند سے گھر پر ہی مکمل کیا۔ والدۂ ماجدہ سے ابتدائی اردو کتب پڑھیں۔ اس کے بعد والدِ بزرگوار نے دارالعلوم منظرِ اسلام میں داخلہ کرا دیا۔ درسِ نظامی کی تکمیل آپ نے منظرِ اسلام سے کی۔

اس کے بعد 1963ء میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جامعہ ازہر، قاہرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور مسلسل تین سال تک جامعہ ازہر، مصر کے فنِ تفسیر و حدیث کے ماہر اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ 1966ء میں جامعہ ازہر سے فارغ ہوئے۔ اپنی جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر آپ کو اس وقت کے مصر کے صدر، کرنل جمال عبد الناصر نے جامعہ ازہر ایوارڈ پیش کیا اور ساتھ ہی سند سے نواز کر فخرِ ازہر کا لقب بھی دیا۔ (مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء، جلد: 1، ص: 145)

قوتِ حافظہ:

1386ھ / 1966ء میں کلیہ اصول الدین، قسم التفسیر والحدیث کی تکمیل فرمائی۔ اس شعبہ میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کی۔ سالانہ امتحان میں معلوماتِ عامہ کا امتحان تقریری ہوا تھا، جس میں ممتحن نے علمِ کلام سے متعلق سوال کیا۔ اس میں آپ کے ہم سبق طلبہ جواب نہ دے سکے۔ ممتحن نے سوال دُہرا کر آپ کی طرف دیکھا اور جواب طلب کیا، پھر آپ نے اس کا شاندار جواب دیا۔ ممتحن صاحب نے پوچھا: آپ شعبۂ تفسیر و حدیث کے متعلم ہیں، پھر بھی علمِ کلام میں یہ گہرائی ہے؟ تب حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے جواب دیا: میں نے دارالعلوم منظرِ اسلام میں علمِ کلام پڑھا ہے۔

آپ کے علمی جواب سے وہ بہت متاثر ہوئے اور آپ کو ہم سبق طلبہ میں سب سے زیادہ نمبر دیے۔ رزلٹ کے بعد آپ کو اول نمبر پر آنے کی وجہ سے مصر کے صدر جناب کرنل جمال عبد الناصر صاحب نے بطورِ تمغہ ایوارڈ دیا اور بی۔اے کی سند عطا کی۔ (سوانحِ تاج الشریعہ، ص: 22)

کتابوں سے محبت:

حضرت مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی رحمۃُ اللہ علیہ، شیخ الحدیث، منظرِ اسلام، بریلی فرماتے ہیں کہ: حضرت تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو کتابوں سے بہت شغف ہے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی نئی نئی کتابیں دیکھنے، پڑھنے کا بہت زیادہ شوق، حتیٰ کہ راستہ چلتے بھی کتاب پڑھتے، اور اب میں دیکھ رہا ہوں، وہ شوق دن دونا، رات چوگنا ہے۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد: 1، ص: 29)

اساتذۂ کرام:

آپ کے اساتذہ میں قابلِ ذکر اساتذۂ کرام یہ ہیں:

  • حضور مفتی اعظم مولانا الشاہ مصطفیٰ رضا خان نوری رحمۃُ اللہ علیہ
  • بحرالعلوم حضرت مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مومونگی
  • مفسرِ اعظم ہند حضرت مولانا محمد ابراہیم رضا جیلانی
  • فضیلۃُ الشیخ مولانا علامہ محمد سماحی، شیخ الحدیث والتفسیر، جامعہ ازہر قاہرہ
  • حضرت علامہ مولانا محمود عبدالغفار، استاذ الحدیث، جامعہ ازہر قاہرہ
  • ریحانِ ملت مولانا ریحان رضا رحمانی رضوی بریلوی
  • استاذُ الاساتذہ مولانا مفتی محمد احمد عرف جہانگیر خان رضوی اعظمی
  • (فتاویٰ تاج الشریعہ، جلد: 1، ص: 150)

    تدریس:

    آپ نے جامعہ ازہر قاہرہ مصر سے 1966ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے جد کریم اعلی حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمۃ الرضوان کے قائم کردہ دارالعلوم منظراسلام، محلہ سوداگران بریلی شریف میں باضابطہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا اور پوری تیاری کے ساتھ مفوضہ درسی کتابیں پڑھاتے رہے، ایک مدت تک آپ نے اس مرکزی دارالعلوم میں علم وفن اور فکر و تحقیق کے آبدار موتی لٹائے علمی گتھیاں سلجھائیں، تحقیق و تدقیق کے تہ نشیں موتیوں کو طلبہ کے سامنے واشگاف کیا۔ پیچیدہ سوالات کے عالمانہ اور محققانہ جواب دیے۔ جہالت و ناخواندگی کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کو علم و آگاہی کی منزل سے آشنا کیا۔اس دوران بہت سے تشنگان علوم نے آپ کے چشمہ صافی سے اپنی علمی پیاس بجھائی اور مسند ارشاد و تدریس کی زینت بنے۔ (تاج الشریعہ کی دینی و علمی خدمات، ص: 4)

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے برادر اکبر مولانا ریحان رضا رحمانی بریلوی علیہ الرحمہ نے 1978ء میں صدر المدرسین کے اعلیٰ عہدہ پر تقرر کیا۔ اور اس عہدے کے ساتھ رضوی دار الافتار کے صدر مفتی بھی رہے۔ درس و تدریس کا سلسلہ مسلسل بارہ سال تک چلتا رہا۔ پھر ہندوستان گئے تبلیغی دورے کی وجہ سے یہ سلسلہ کچھ ایام کے لیے منقطع ہو گیا۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد اپنے دولت کدے پر درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ جس میں منظر اسلام، مظہر اسلام اور جامعہ نوریہ رضویہ کے طلبہ کثرت سے شرکت کرتے۔ (مفتی اعظم ہند اور ان کے خلفاء، جلد:1، ص:151)

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے علم و فضل سے اکتساب فیض کرنے والوں کی تعداد شمار سے باہر ہے ، البتہ آپ علیہ الرحمہ سے براہ راست اور باقاعدہ شرف تلمذ پانے والوں میں سے چند حضرات کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں: (1) حضرت علامہ مولانا منان رضا منانی میاں (2) مفتی محمد ناظم علی بارہ بنکوی (مرکزی دار الافتاء، بریلی) (3) مفتی سید شاہد علی رامپوری (جامعہ اسلامیہ رامپور ) (4) مفتی محمد بشیر الدین رضوی دینا جپوری (5) مفتی محمد انور علی بہرائچی (مدرس منظر اسلام، بریلی )(6) مفتی محمد ایوب عالم رضوی (7) مولانا کمال احمد خان رضوی نانپاروی (8) مولانا جمیل احمد خان نوری بستوی (ریسرچ اسکالر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) (9) مولانا مظفر حسین رضوی (سابق مدرس جامعہ نوریہ رضویہ ، بریلی) (10) مولانا ذوالفقار احمد خان نوری رامپوری (ایڈیٹر ماہنامہ سنی دنیا، بریلی) وغیرہ وغیرہ ہیں۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص: 624)

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کا عقد مسنون حکیم الاسلام حسنین رضا خان بریلوی کی دختر نیک کے ساتھ 13 نومبر1968ء مطابق شعبان المعظم 1388ھ بروز اتوار کو محلہ کانکر ٹولہ شہرکہنہ بریلی شریف میں ہوا۔ آپ کے ایک صاحبزادہ مخدوم گرامی مولانا عسجد رضا خان قادری بریلوی اور پانچ صاحبزادیاں ہیں۔ (حیات تاج الشریعہ و خدمت دین، ص:20)

    بیعت و خلافت:

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو بیعت و خلافت کا شرف سر کار مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل ہے۔ سرکار مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے بچپن ہی میں آپ کو بیعت کا شرف عطا فرمادیا تھا۔ اور صرف 19 سال کی عمر میں 15 جنوری 1962 / 1381ھ کو تمام سلاسل کی خلافت و اجازت سے نوازا۔

    علاوہ ازیں(اس کے علاوہ) آپ کو خلیفہ اعلیٰ حضرت برہان ملت ضرت مفتی بربان الحق جبل پوری رحمۃ اللہ علیہ، سید العلماء حضرت سید شاہ آل مصطفی برکاتی مارہروی رحمۃ اللہ علیہ، احسن العلماء حضرت سید حیدر حسن میاں برکاتی رحمۃ اللہ علیہ، والد ماجد مفسر اعظم علامہ مفتی ابراہیم رضا خاں قادری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل ہے۔

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے دنیا بھر میں متعدد خلفاء و مجازین موجود ہیں، ان سب کا ذکر اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں، البتہ چند حضرات کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں

    (1) علامہ محمد عبد الحکیم اختر شاہجہانپوری (2) مفتی سید شاہد علی رضوی (3) مولانا حنیف القادری (نیپال) (4) مفتی محمد مظفر حسین رضوی ( نائب مفتی مرکزی دار الافتاء، بریلی) (5) شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف خان رضوی (6) مفتی قمر الحسن قادری (امریکہ) (7) شیخ محمد عمر سلیم حنفی (عراق) (8) پیر اجمل رضا قادری صاحب (9)الحاج محمد سعید نوری (چیئرمین رضا اکیڈمی، ممبئی) (10) مفتی محمد یونس رضا (وائس پرنسپل " جامعۃ الرضا " متھر اپور ، بریلی ) (11) علامہ انور علی رضوی (شیخ الادب "منظر اسلام " بریلی ) (12)مفتی محمد اختر حسین قادری رضوی (خلیل آباد) (13) صاحبزادہ مولانا محمد عسجد رضا خان صاحب وغیرہ وغیرہ ہیں۔ (تجلیات تاج الشریعہ،ص: 619 )

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو اپنے مرشد برحق شہزادہ اعلی حضرت تاجدار اہلسنت مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد مصطفی رضا خاں نوری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں بھی بلند مقام حاصل تھا۔ سرکار مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آپ سے بچپن ہی سے بے انتہا توقعات وابستہ تھیں جس کا اندازہ ان کے ارشادات عالیہ سے لگایا جا سکتا ہے جو مختلف مواقع پر آپ نے ارشاد فرمائے: ”اس لڑکے(حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ) سے بہت امید ہے“

    مسند افتاء:

    سرکار مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے دارالافتاء کی عظیم ذمہ داری آپ کو سونپتے ہوئے فرمایا: اختر میاں اب گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں یہ لوگ جن کی بھیڑ لگی ہوئی ہے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتے، اب تم اس کام کو انجام دو میں تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ لوگوں سے مخاطب ہو کر مفتی اعظم نے فرمایا: آپ لوگ اب اختر میاں سلمہ سے رجوع کریں انہیں کو میرا قائم مقام اور جانشین جانیں۔ حضور مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری دور میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو تحریراً اپنا قائم مقام و جانشین مقر فرمایا تھا۔ (حضور تاج الشريعہ ایک مختصر تعارف، ص: 3)

    حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ جب جامعہ ازہر سے تشریف لائے تو درس کے ساتھ افتا نویسی کا بھی آغاز کیا۔ چنانچہ 1966ء ہی میں ایک استفتا کا شاندار جواب لکھا۔ یہ استفتا مرکز اسلام مدینہ المنورہ سے آیا تھا۔ طلاق، نکاح، میراث پر مشتمل تھا۔ جواب لکھنے کے بعد حضرت نے پہلے بحرالعلوم حضرت مفتی سید افضل حسین مونگیری صاحب کو دکھایا انہوں نے دیکھنے کے بعد تحسین کی اور کہا کہ مولانا اسے اپنے نانا جان مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کو دکھائے۔

    حضرت نے اسے اپنے شیخ و استاذ نانا محترم کو دکھایا۔ نانا صاحب نے دلائل و براہین سے مزین فتوی کو دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا اور صدائے تحسین بلند کی۔ حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اس کے بعد مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کی چاہت اور توجہ ہوئی بلکہ خاندانی بزرگ مولانا حبیب رضا صاحب کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ناغہ ہو جاتا تھا تو حضرت کی اہلیہ محترمہ پیرانی اماں صاحبہ دریافت فرماتیں کہ آج اختر میاں نہیں آئے ہیں ان سے کہو کہ روزانہ آیا کریں۔ حضرت ان کو بہت پسند فرماتے ہیں۔ (فتاویٰ تاج الشریعہ جلد:1، ص:36)

    جزیات فقہیہ پر ہے تیری کامل نظر

    صدر بزم مفتیاں اختر رضا قادری

    حضرت کا خطاب تین زبانوں میں ہوتا ہے۔ ہندو پاک و بنگلہ دیش میں اُردو میں، عرب ممالک میں عربی میں ، یورپ میں انگلش میں ، حضرت کے سیکڑوں خطبات ٹیپ ہیں ۔ یوٹیوب (youtube) پر بھی بعض خطبات لوڈ ہیں۔ حضرت کا انداز بیان سادگی اور شائستگی لیے ہوتا ہے۔ اسلوب عمدہ ہوتا ہے، درمیان خطابت جو شیلا رنگ بھی آتا ہے جس سے مجمع بے دار اور مستعدی کے ساتھ دل کے کان سے سننے لگتا ہے۔

    حضرت سب سے پہلے عربی میں خطبہ پڑھتے ہیں پھر آیت شریف کی تلاوت، اس کے بعد موضوع کی مناسبت سے عربی یا انگلش یا اُردو و فارسی میں اشعار پڑھتے ہیں۔ پھر اقوال ائمہ اور احادیث کریمہ اور آیات قرآنیہ کی روشنی میں تلاوت کردہ آیت مقدسہ پر حالات حاضرہ کی روشنی میں ایمان افروز بیان کرتے ہیں۔

    دور حاضر کے ممتاز اسلامی اسکالرعلامہ ضیاء المصطفیٰ قادری صاحب لکھتے ہیں : اللہ تعالی نے آپ ( تاج الشریعہ ) کو کئی زبانوں پر ملکۂ خاص عطا فرمایا ہے، زبان اُردو تو آپ کی گھریلو زبان ہے اور عربی آپ کی مذہبی زبان ہے، ان دونوں زبانوں میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل ہے جس پر آپ کی اُردو اور عربی نعتیہ شاعری شاہد عدل ہیں۔ آپ کے برجستہ اور فی البدیہہ نعتیہ اشعار فصاحت و بلاغت، حسن ترتیب اور نعت تخیل میں کسی کہنہ مشق استاذ کے اشعار سے کم درجہ نہیں ہوتے۔ عربی زبان کے قدیم وجدید اسلوب پر آپ کو ملکہ راسخ حاصل ہے۔ آپ کی خطابت اور شاعری اور ترجمہ نگاری کسی پختہ کار عربی ادیب کے ادبی کارناموں پر بھاری نظر آتی ہے۔

    جامعہ ازہر کے دور تحصیل میں جب آپ کا عربی کلام ازہر کے شیوخ سنتے تو کلام کی سلاست و نزاکت اور حسن ترتیب پر جھوم اٹھتے اور کہتے تھے کہ یہ کلام کسی غیر عربی کا محسوس ہی نہیں ہوتا۔

    یہ واقعہ میرے سامنے کا ہی ہے کہ زمبابوے میں ایک مصری شیخ نے آپ کے حمدیہ اشعار سنے تو بہت ہی محظوظ ہوئے اور اس کی نقل کی فرمائش بھی کر ڈالی۔ حضرت کو میں نے انگلینڈ، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، زمبابوے وغیرہ میں برجستہ انگریزی زبان میں تقریر و وعظ کرتے دیکھا ہے۔ اور وہاں کے تعلیم یافتہ لوگوں سے آپ کی تعریفیں بھی سنیں، اور یہ بھی ان سے سنا کہ حضرت کو انگریزی زبان کے کلاسیکی اسلوب پر عبور حاصل ہے۔ (سوانح تاج الشریعہ، ص: 36)

    علوم و فنون میں مہارت

    جانشین مفتی اعظم ، حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کو مختلف اور متعدد علوم وفنون میں مہارت حاصل تھی، ان میں سے چند علوم و فنون کے حسب ذیل ہیں :

    (1) علوم قرآن (2) اصول تفسیر (3) علم حدیث (4) اصول حدیث (5) اسماء الرجال (6) فقہ حنفی (7) فقہ مذاہب اربعہ (8) اصول فقہ (9) علم کلام (10) علم صرف (11) علم نحو(12) علم معانی (13) علم بدیع (14) علم بیان (15) علم منطق (16) علم فلسفه قدیم و جدید (17) علم مناظرہ (18) علم الحساب (19) علم ہندسہ (20) علم ہیت (21) علم تاریخ (22) علم مربعات (23) علم عروض وقوافی (24) علم تکسیر(25) علم جفر (26) علم فرائض (27) علم توقیت (28) علم تقویم (29) علم تجوید و قراءت (30) علم ادب ( نظم و نثر عربی نظم و نثر فارسی، نظم و نثر انگریزی، نثر هندی، نظم و نثر اردو) (31) علم زیجات (32) علم خطاطی (33) علم جبر و مقابلہ (34) علم تصوف (35) علم سلوک (36) علم اخلاق۔ (سوانح تاج الشریعہ، ص: 37)

    تصنیفات حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے کئی مختلف علوم وفنون پر متعدد کتب تصنیف فرمائیں ہیں۔ ان میں سے چند کے نام حسبِ ذیل ہیں:

    (1) شرح حدیث نیت (2)ہجرت رسول (3)آثار قیامت (4)سنو چپ رہو(5)ٹائی کا مسئلہ(6)تین طلاقوں کا شرعی حکم (7)تصویروں کا حکم (8)دفاع کنز الایمان، ۲ جز (9)الحق المبين (10)القول الفائق بحكم اقتداء الفاسق (11) فتاوى تاج الشریعہ (12) الصحابة نجوم الاهتداء (13) مرآة النجدية بجواب البريلوية (15) کیا دین کی مہم پوری ہو چکی؟ (16) حاشية الأزهري على صحيح البخاري وغیرہ وغیرہ ہیں۔ (سوانح تاج الشریعہ، ص: 100)

    ہم نے صرف چند کتابوں کے نام ذکر تحریر فرمائیں ہیں۔ آپ اگر کتابوں کی مکمل فہرست دیکھنا چاہتے ہیں تو ”سوانح تاج الشریعہ،“ وغیرہ کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

    آپ کے متعلق علماء کرام کے تاثرات

    مفتی اعظم راجستھان حضرت علامہ مفتی اشفاق حسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں صاحب ازہری (رحمۃ اللہ علیہ ) ماشاء اللہ علم و فضل، زہد و تقوی و تدوین میں یکتاے روز گار ہیں علم و فضل ، فقہ و تفقہ عربی زبان وادب کی مہارت و حذاقت اور زہد و تقویٰ، تصوف و تصلب في الدین اور استقامت علی الشریعہ میں الولد سر لابیہ کے تحت سیدنا اعلی حضرت ، حضرت حجہ الاسلام و حضرت مفتی اعظم ہند (رضی اللہ تعالی عنہم) کے عکس جمیل ہیں گلزار رضویت کے ایسے شگفتہ گل ہیں جن کے علم و فضل اخلاص وللہیت ، خوف و خشیت علم و تدبر اور فقہ و بصیرت کی خوشبو سے پوری دنیاے سنیت معطر و مشکبار ہے۔ دین و سنیت و مسلک اعلی حضرت کے ایسے روشن مینارہ ہیں جس کی تابشوں اور ضیا پاشیوں سے پوری دنیائے سنیت روشن ہے۔ (فیضان تاج الشریعہ، ص:18)

    علم فقہ میں وسیع پیمانے پر مطالعہ مبلغ اسلام حضرت علامہ مولانا عبد المبین نعمانی صاحب فرماتے ہیں: آپ ( تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ ) کی ذات پوری جماعت اہل سنت کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے، تفقہ فی الدین میں جو وراثت آپ کو حاصل ہے یکتائے زمانہ ہیں، فقہی جزئیات نوک زبان رہتے ہیں۔

    ایک بار جب آپ جمشید پور میں تشریف لے گئے تھے ، جناب علیم الدین صاحب کے مکان پر رونق افروز تھے کہ ایک استفتا آیا، آپ نے فوراً اس کا جواب ارقام فرمایا اور متعدد فقہی عبارات سے بھی مزین فرمایا، اور دستخط کر کے حوالہ کر دیا۔ جب کہ کوئی کتاب سامنے نہ تھی۔ (فیضان تاج الشریعہ، ص:20)

    قطب مدینہ علامہ مفتی ضیاء الدین مدنی فرماتے ہیں: مجھے میرے مرشد حضور اعلی حضرت نے سے جو کچھ ملا ان خانوادے کے شہزادے مولانا ابراہیم رضا خان، مولانا ریحان رضا خان اور مولانا اختر رضا خان کو عطا کر دیا۔ (تجلیات تاج الشریعہ ، ص:599)

    حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں: حضرت مفتی اعظم ہند کو اپنی زندگی کے آخری پچیس سالوں میں جو مقبولیت و ہر دل عزیزی حاصل ہوئی وہ آپ کے وصال کے بعد ازہری میاں کو بڑی تیزی کے ساتھ ابتدائی سالوں ہی میں حاصل ہو گئی اور بہت جلد لوگوں کے دلوں میں ازہری میاں نے اپنی جگہ بنالی۔ (تجلیات تاج الشریعہ ، ص :600)

    علامه ارشد القادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے حضور ازہری میاں کو زبرست مقبولیت دی ہے۔ ایسی مقبولیت تو دیکھنے میں نہ آئی۔ دیکھو تو سہی کہ ازہری میاں کو مختلف جگہ پروگرام میں جانا تھا رانچی ایئر پورٹ پر اترے پھر بذریعہ کار فلاں جگہ پہنچنا تھا مگر رانچی میں ان سے ملنے کیلئے ہزاروں میکشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ جب کہ رانچی میں رکنا نہ تھا۔ صرف وہاں سے گزرتا تھا۔ مگر آنا فانا اتنے لوگوں کا اکٹھا ہو جانا بڑی بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسری مخلوق لوگوں کے کانوں تک بات پہنچا دیتی ہے اور آنا فانا سب جمع ہو جاتے ہیں۔ ( تجلیات تاج الشریعہ،ص:600)

    ڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب فرماتے ہیں: اس خاندان (رضا) کے علمی کمال کا ایک جہاں کو اعتراف ہے بالخصوص جامع معقول و منقول ، صاحب تحقیق و تدقیق منبع رشد و ہدایت، امام العصر شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد اختر رضا قادری ازهری (رحمۃ اللہ علیہ ) کی شخصیت علوم و معارف رضا کے لیے ایک آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے اور علم و عمل کے لحاظ سے معیاری گردانی جاتی ہے آپ کو متعدد زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ اس لیے آپ کی تبلیغی کاوشوں پر بڑے دور رس نتائج وفوائد مرتب ہوئے ہیں۔

    وصال:

    علم و ادب کا یہ روشن و تابناک آفتاب 6 ذوالقعدۃ الحرام 1439ھ بمطابق 20جولائی 2018ء بروز جمعۃ المبارک مغرب کے وقت غروب ہوگیا۔

    اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے اور ہمیں ان کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے ۔ آمین

    ایک تبصرہ شائع کریں

    جدید تر اس سے پرانی
    WhatsApp Profile
    لباب-مستند مضامین و مقالات Online
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
    اپنے مضامین بھیجیں