عنوان: | احساس امانت داری |
---|---|
تحریر: | محمد طارق القادری بنارس |
امانت داری ایک ایسا عظیم وصف ہے، جس کا حقیقی احساس صرف مؤمن کو ہوتا ہے، کیونکہ جو منافق ہوتا ہے، وہ امانت دار ہو ہی نہیں سکتا۔
جیسا کہ حدیثِ پاک میں منافق کی علامات میں سے ایک علامت خیانت بھی بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا، جس کے دل میں امانت داری کا احساس بیدار ہو، وہ خیانت سے بچتا ہے، کیونکہ امانت داری خیانت سے باز رکھتی ہے۔
یہ وصف صرف متقی اور پرہیزگار افراد تک محدود نہیں، بلکہ بعض اوقات فاسق و فاجر افراد میں بھی یہ صفت پائی جاتی ہے۔
جیسا کہ مفتی حسان عطاری مدنی نے ضیاء القاری میں نقل کیا ہے:
امام سفیری لکھتے ہیں: ایک شخص قیمتی لباس پہن کر نہر پر تیراکی کرنے آیا۔ نہر کے کنارے ایک شخص بیٹھا تھا، جو پیشے کے طور پر لوگوں کے جوتے چوری کرکے فروخت کرتا تھا۔
اس تیراک کو چور کے بارے میں علم نہ تھا، اس لیے اُس نے اپنے کپڑے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا: میں نہر میں نہا کر آتا ہوں، براہِ کرم میرے کپڑوں کی حفاظت کیجیے۔ چور نے وعدہ کر لیا۔ کافی دیر بعد، جب وہ شخص واپس آیا، تو چور نے شکوہ کیا: تم دیر سے آئے، جس کی وجہ سے میں آج کی کمائی سے محروم ہو گیا۔
اس شخص نے حیرت سے پوچھا: تمہارا پیشہ کیا ہے؟
چور نے جواب دیا: میں جوتے چوری کرکے بیچتا ہوں اور اسی سے کمائی کرتا ہوں۔
وہ شخص بولا: افسوس! تم چوری کرتے ہو، اور تمہارے ہاتھ میں سونے کے سو سکوں کے برابر قیمتی کپڑے تھے، پھر بھی تم نے انہیں چرا کر فرار ہونے کا سوچا تک نہیں؟
چور نے جواب دیا: اے میرے سردار! تم نے مجھے امانت دار سمجھ کر کپڑے دیے تھے، میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ تمہارے اعتماد کو ٹھیس پہنچاؤں۔ (ضیاء القاری، جلد1، صفحہ 434، حدیث: 31، مکتبۃ المدینہ)
اس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر کوئی ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہمیں کوئی چیز بطورِ امانت سپرد کرے، تو ہمیں اس اعتماد کی لاج رکھنی چاہیے اور ہرگز خیانت سے بچنا چاہیے۔
اللہ پاک ہمیں سچی امانت داری اختیار کرنے اور ہر قسم کی خیانت سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! بجاہِ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔