عنوان: | دور حاضر کا نوجوان اور دین فاصلہ کیوں |
---|---|
تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
دورِ حاضر کا مسلم نوجوان نئی ٹیکنالوجی، سائنسی ترقی، اور تیز رفتار زندگی کی دوڑ میں مصروف ہے۔ بظاہر وہ تعلیم یافتہ، باشعور اور ترقی کی راہوں پر گام زن نظر آتا ہے، مگر جب اس کی روحانی، اخلاقی اور دینی حالت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک خلا، الجھن اور دین سے فاصلہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر آج کے نوجوان اور دین کے درمیان یہ فاصلہ کیوں پیدا ہوا ہے؟ اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ اور ان کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
سب سے پہلی وجہ دینی تعلیم کا فقدان ہے۔ آج کے تعلیمی اداروں۔ اسکول، کالج، اور یونیورسٹیوں میں صرف عصری علوم سکھائے جاتے ہیں، جبکہ دین کی حقیقی تعلیم کا اہتمام نہیں ہوتا۔ نتیجتاً نوجوان دین کے بنیادی عقائد، عبادات، اور اخلاقی اصولوں سے ناآشنا رہتے ہیں۔ جب انہیں دین کی روشنی نہیں ملتی، تو وہ غیر محسوس طریقے سے اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ خاندان اور معاشرے کا اثر گھریلو ماحول ہے۔ بچپن ہی سے اگر گھر میں نیک ماحول میسر نہ ہو، نماز کی پابندی نہ ہو، قرآن کا ذکر نہ ہو، اور حلال و حرام کی تمیز نہ سکھائی جائے، تو بچے فطری طور پر دین سے دور ہو جاتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اکثر والدین دینی تربیت کو نظر انداز کرتے ہیں یا اسے صرف مدارس کی ذمہ داری سمجھتے ہیں، حالاں کہ تربیت کی بنیاد گھر سے ہی رکھی جاتی ہے۔
تیسری وجہ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کا غیر شعوری استعمال ہے۔ آج کا نوجوان سوشل میڈیا سے جڑا ہوا ہے، جہاں مغربی افکار، مادّہ پرستی، لذت پسندی، اور دینی احکامات کا مذاق عام ہے۔ دین کو دقیانوسی، تنگ نظر، اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مواد نوجوانوں کے کچے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور ان کے فکری و ایمانی رشتے کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
یاد رکھیں، نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر ان کا تعلق دین سے مضبوط ہو تو وہ نہ صرف اچھے انسان بن سکتے ہیں، بلکہ ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں نوجوانوں کو دین سے جوڑنے کے لیے سختی یا جبر کے بجائے محبت، حکمت، اور فہم و شعور کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ دین کو صرف مسجدوں اور کتابوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی تربیت دینی ہوگی۔
اگر ہم نے اس فاصلے کو کم کرنے میں مزید تاخیر کی، تو اندیشہ ہے کہ دین محض رسم و رواج اور عبادات تک محدود ہو کر رہ جائے گا، اور اس کا عملی اثر ہماری زندگیوں سے ختم ہو جائے گا۔
دین سے دوری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو دین کی اہمیت اور اس پر عمل کرنے کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ انہیں اسلامی تعلیمات سے متعلق صحیح معلومات فراہم کی جائیں اور ان کی رہنمائی کی جائے۔ اس کے علاوہ، خاندان اور معاشرے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ نوجوان دین کی طرف راغب ہوں۔
اللہ تبارک وتعالی آج کے نوجوانوں کو ہدایت دے اور ان میں صحابہ کرام والا جذبہ عطا فرمائے جن کا مقصد دین پر مر مٹنا تھا۔ آمین