عنوان: | محرم صبر و استقامت اور قربانی کا درس دیتا ہے |
---|---|
تحریر: | زہرا فاطمہ قادریہ |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
محرم الحرام کا مہینہ ہم پر سایہ فگن ہے جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ قرآنِ کریم میں جہاں بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو رب تعالیٰ نے محترم قرار دیا، ان میں محرم الحرام سر فہرست ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ اور انمیں لوگ جنگ ،جدل سے رک جاتے تھے۔ اس کو اشہر الحرام بھی کہا جاتا ہے۔
محرم الحرام صبر ایثار ،قربانی اور اتحادِامت کا درس دیتا ہے۔ مدینۃ المنورۃ سے میدان کربلا تک اسلام کیلئے عظیم قربانیوں کی تاریخ اسی ماہ مبارک سے وابستہ ہے۔
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سے عظیم واقعات پیش آئے جنہوں نے انسانیت کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفانِ نوح کے بعد جودی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری، حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے نجات حاصل ہوئی، حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفاء نصیب ہوئی، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی، حضرت موسیٰ علیہ السلام و بنی اسرائیل کو فرعون سے اس طرح نجات ملی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بُحیرہ قلزم میں غرق کردیا وغیرہ۔
خاص طور پر یکم محرم الحرام کو خلیفۃ الثانی، مراد رسول ﷺ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دس محرم الحرام کو نواسۂ رسول ﷺ سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے قافلے اور خاندان نبوت کے افراد کے ساتھ شہادت جیسے واقعات سے ناصرف مسلمان بلکہ انسانیت اور تاریخِ انسانیت ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کرکے اور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی قربانی دے کر اسلام کو دربارہ زندہ کیا۔ قربان جائیں ان نفوس قدسیہ کی حق پرستی پر کہ جنہیں جان دینا، گھر لٹانا، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو شہید کرنا تو برداشت کرلیا پر باطل کے سامنے سر جھکانے کو گوارانہ کیا۔امام حسین نے کربلا کے میدان میں جامِ شہادت نوش فرما کر واضح پیغام دیا کہ دینِ اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے والے کے سامنے ڈٹ جانا ہی حسینیت ہے۔
دینِ اسلام کیلئے جو اتنی بڑی قربانی دی گئی اور امامِ عالی مقام نے اپنے ہاتھوں سے اپنے خاندان کے نوجوانان شہداء کے زخموں سے چور لاشے اٹھاۓ جس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ، خدمتِ دین و دعوت دین میں کبھی بھی پس و پیش کا شکار نہ ہونا بلکہ جب بھی موقع میسر آۓ دین کے نام پے چل پڑیں ۔دین کی حفاظت میں اپنے گھر بار ،احباب، بلکہ اپنی جان بھی راہِ خدا میں صرف کرنا پڑے تو بھی پیچھے نا ہٹنا بلکہ آگے بڑھ کر دین کی حفاظت کیلیے حق و باطل کے درمیان مضبوط دیوار کی مانند کھڑے ہوجانا اور ہر خواہش و آسائش کے مقابلے میں دین و ایمان کو ہی ترجیح دینا۔
خاندان نبوت اور امامِ عالی مقام کا صبر و رضا، کلمہ حق کو بلند کرنا، جرأت و استقامت اور حق کے لیے ہر قوت سے ٹکرا جانا، ایک ایسا کردار ہے جس نے تاریخ کو، کربلا کو، امتِ مسلمہ اور ایمانی جذبوں کو زندہ و جاوید کردیا ہے۔
انہی قربانیوں کا سب سے بڑا درس یہی ہے کہ ذاتی جذبات و خواہشات ،مفاد کو کسی بھی عظیم مقصد کے حصول کیلئے قربان کردیا جاۓ۔ اگر دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں مصائب و آلام اور تکالیف کی کالے بادل بھی چھاجائیں تب بھی احکامِ خدا وندی سے غفلت مت برتنا بلکہ شریعت پر عمل کی شمع سے ان تاریکیوں کو کافور کرنا۔