✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

دورِ حاضر میں علم کی اہمیت

عنوان: دورِ حاضر میں علم کی اہمیت
تحریر: عالمہ ام الورع ایوبی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

علم کا لغوی معنی یقین اور معرفت کے ہیں۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں علم کی فضیلت اور اہمیت بے شمار ہیں۔ کامیابی کا زینہ اور راستہ علم ہی ہے۔ بےغیر علم کے انسان ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہر دور اور ہر زمانے میں علم کا بول بالا رہا ہے۔ جس قوم نے جتنا علم حاصل کیا، اتنا ہی ترقی اور کامیابی حاصل کی۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ بھی علم ہی کی بدولت ملا ہے۔ اللہ رب العزت خود علم حاصل کرنے کا حکم فرما رہا ہے۔

چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (الطٰہٰ:114)

ترجمہ کنزالایمان: عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کو علم میں زیادتی کی دعا کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ علم ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو ہی نوازتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 9)

ترجمہ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔

اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلہ: 11)

ترجمہ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ علم کا درجہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بلند ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (البقرہ:37)

ترجمہ کنزالایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا، تو انہیں کچھ کلمات سکھائے، جن کی بدولت ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے بھی علمِ ربانی کی ضرورت ہے۔

دورِ حاضر میں علم ایک بے مثال نعمت کی حیثیت رکھتا ہے، جو انفرادی، اجتماعی اور معاشرتی خوش حالی کا راز ہے۔ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اہلِ علم کا مقام بلند بتایا گیا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔ (المشکوٰۃ: 34)

ترجمہ: علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ علم کے بے غیر انسان نامکمل ہے۔

حضرت علی رضہ اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لَيْسَ الْجَمَالُ بِأَثْوَابٍ تُزَيِّنُنَا إِنَّ الْجَمَالَ جَمَالُ الْعِلْمِ وَالْأَدَبِ

ترجمہ: خوب صورتی لباس کی زینت سے نہیں ہوتی، بلکہ اصل خوب صورتی علم و ادب کی ہوتی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

لَيْسَ الْيَتِيمُ الَّذِي قَدْ مَاتَ وَالِدُهُ بَلِ الْيَتِيمُ يَتِيمُ الْعِلْمِ وَالْأَدَبِ

ترجمہ: یتیم وہ نہیں جس کے والد فوت ہو چکے ہوں، بلکہ یتیم وہ ہے جو علم و شرافت سے محروم ہو۔ (مجانی الادب:16)

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم دینی اور عصری، دونوں تعلیمات سے خود کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ اگر ہم صرف دینی تعلیم حاصل کریں گے تو دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی، لیکن اگر ہم صرف عصری تعلیم تک محدود رہیں گے تو وقتی کامیابی تو ممکن ہے، لیکن دائمی کامیابی ہمارا مقدر نہیں بن سکے گی۔

علم حاصل کرنے کے بعد ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علم کو دوسروں تک پہنچائیں، معاشرتی اصلاح کریں اور کتمانِ علم (علم کو چھپانے) سے پرہیز کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، بجاہ سید المرسلین ﷺ

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں