عنوان: | شانِ فاروق اعظم بزبانِ رسول اعظم ﷺ |
---|---|
تحریر: | المیرا قادریہ رضویہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
یکم محرم الحرام کو اسلام کے دوسرے خلیفہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا یوم شہادت ہے اس مناسبت سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مختصر تعارف اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نامِ نامی اسم گرامی "عمر" کے تین حروف کی نسبت سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت پر مشتمل تین فرامینِ مصطفیٰ ﷺ مع شروحات بیان کی جاتی ہیں، تاکہ ان کے ذریعے معتقدین کے جذبۂ محبت میں اضافہ ہو اور مجھ ناکارہ کے لیے ذریعۂ قرب و نجات کا کچھ انتظام ہو جائے۔
فاروق اعظم کا مختصر تعارف:
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام نامی عمر بن خطاب ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نبوت کے چھٹے سال چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد ایمان لاۓ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے دن سے اسلام کا غلبہ شروع ہوا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد آپ اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوۓ۔ اسی طرح افضلیت میں بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا مرتبہ ہے۔ (کتاب العقائد: ص 44)
فاروق اعظم کے فضائل پر مشتمل 3 فرامین مصطفیٰ ﷺ
فاروق اعظم کا عشق رسولﷺ
ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے حضرت سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا کہ آپ بار گاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے:
وَاللهِ لَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللهِ أَحَبُّ إِلَى مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا نَفْسِی
یعنی یارسول اللہ ! اللہ پاک کی قسم ! آپ مجھے میری جان کے علاوہ باقی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔
نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يُؤْ مِنْ أَحَدُكُم حَتَّى أَكُونَ عِنْدَهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ
یعنی تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
فَلَانْتَ الْآنَ وَاللَّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِی
یعنی اللہ پاک کی قسم ! اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
الآن يا عبد
یعنی اے عمر ! اب (تمہارا ایمان کامل ہے)۔ (مسند احمد: 6/303 حدیث :18069)
اعلیٰ حضرت ، امام اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اس حدیث شریف کی نہایت ایمان افروز عشق بھری وضاحت فرمائی ہے جو آسان الفاظ میں پیش کی جاتی ہے:
محبت کی دو قسمیں ہیں: (1) طبعی و فطری محبت۔ (2) اختیاری محبت۔
ایمان کا دار و مدار اختیاری محبت پر ہے اور ایمان والوں کو اسی کا حکم دیا گیا ہے۔ طبعی محبت جو ہر انسان بلکہ جانور کو بھی اپنی جان اور اولاد سے ہوتی ہے، ایمان کے معاملے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر کسی کی اپنی جان سے طبعی محبت (اللہ و رسولﷺ کی محبت سے) زیادہ ہو تو اس سے اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔طبعی محبت اللہ و رسولﷺ کی محبت سے زیادہ ہو تو اس سے اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی طبعی محبت سے متعلق عرض کیا کہ یہ مجھے اپنی جان سے زیادہ ہے، حضور سید عالمﷺ نے جواب دیا کہ شریعت اختیاری محبت پر نظر فرماتی ہے۔ یہ جواب سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے کہ اللہ کی قسم ! اختیاری محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ حضورﷺ سے ہے۔
(میں کہتا ہوں): نبی کریمﷺ کی تنبیہ (Warning) نے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت پر ایسا غلبہ کیا کہ اختیاری محبت کے انتہائی جوش نے طبعی محبت کو دبا لیا بلکہ فنا کر دیا اور طبعی طور پر بھی رسول اللہﷺ اپنی جان سے زیادہ محبوب ہو گئے۔ اب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عشق رسول میں اس عظیم اضافے کا حال عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ! اب تو اپنی جان کی طبعی محبت بھی آپ کی محبت میں گم ہو چکی ہے۔
امام اہلِ سنت رحمتہ اللہ تعالی علیہ آخر میں فرماتے ہیں:
هُكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُفْهَمَ هُذَا الْحَدِيثُ وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ
یعنی اس حدیث کو اس طرح سمجھنا چاہیے اور توفیق اللہ پاک کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ (حاشیہ اذاقۃ الشام، ص 116)
جان ہے عشق مصطفے روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز دوا اُٹھائے کیوں
فاروق اعظم کا علم حضورﷺ کی عطاء
فرمان مصطفٰیﷺ :
میں سو رہا تھا کہ مجھے دودھ کا پیالہ دیا گیا۔ میں نے اتنا پیا یہاں تک کہ آسودگی (سیری) کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھنے لگا۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن خطاب کو دیا۔ لوگوں نے پوچھا: یارسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی۔ ارشاد فرمایا: علم ۔ (البخاری:44)
شارح بخاری، مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث شریف کے تحت فرماتے ہیں:
دودھ کی تعبیر علم کے ساتھ اس مناسبت سے ہے کہ دونوں کثیر النفع اور مفید ہونے میں مشترک ہیں۔ دودھ انسان کی بہترین غذا اور بدن کے لئے مقوی ہے اور علم سے دین و دنیا سنورتی ہے اور علم روح کی غذا اور اس کے لئے مقوی ہے۔ اس حدیث سے علم کی فضیلت یوں ثابت ہوتی ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کا عطا فرمودہ فضلہ مبارکہ (بچا ہوا تبرک) ہے۔ ( نزہۃ القار:434/1)
فاروق اعظم سے محبت کی جزا اور بغض کی سزا
فرمان مصطفٰی ﷺ:
مَنْ أَبْغَضَ عُمَرَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَحَبَّ عُمَرَ فَقَدْ أَحَبَّنِی
یعنی جس نے عمر سے دشمنی رکھی تو بے شک اس نے مجھ سے دشمنی رکھی اور جس نے عمر سے محبت کی تو تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی۔ (معجم اوسط: 5 / 102 ح:6726)
امام احمد بن محمد خفاجی مصری رحمتہ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ عظمت و شان اس لئے بیان کی گئی کیونکہ آپ دینی معاملات میں سختی فرماتے تھے جس سے بعض لوگوں کے دل میں وحشت پیدا ہوتی تھی۔
رسول اللہﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دشمنی کو منافقت قرار دیا کیونکہ آپﷺ نے ان سے محبت فرمائی، انہیں مقدم کیا اور ان سے راضی ہوئے تو ان سے راضی نہ ہو نا رسول اللہﷺ سے راضی نہ ہونے تک لے جاتا ہے، جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
عَنِ الْمَرْءِ لَا تَسْتَلْ وَسَلْ عَنْ قرینه
یعنی آدمی کے بارے میں نہ پوچھو بلکہ اس کے ساتھ رہنے والے کے بارے میں پوچھو۔ (نسیم الریاض: 519/4)
وہ عمر جس کے اعدا پہ شیدا سقر
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
اللہ تعالی فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت ہمارے دلوں میں نقش فرماۓ، آپ رضی اللہ تعالی عنہ زبان مبارک کے صدقہ ہمیں ہمیشہ حق اور عدل و انصاف بولنے اور لکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔