عنوان: | دو راستے |
---|---|
تحریر: | عائشہ رضا عطاریہ |
عزیز قارئین! انسان کی زندگی میں دو ہی راستے ہیں جو اس کے انجام کا تعین کرتے ہیں۔
ایک راستہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے متعین کیا ہے، جو ہمیں جنت، کامیابی، سکون اور ابدی خوشی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ راستہ ایمان، تقویٰ، صداقت، نیکی اور اللہ کی اطاعت پر مبنی ہے۔
دوسرا راستہ وہ ہے جو شیطان اور نفس امارہ کی طرف بلاتا ہے، جو دوزخ، گمراہی، پستی، جھوٹ، بے ایمانی اور ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ راستہ گناہ، معصیت، لالچ اور اللہ کی نافرمانی پر مبنی ہے۔
اور تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بیشک اور بلاشبہ اے بہت زیادہ گناہ کرنے والے!اے کم رونے والے! اپنے نا رونے پر بھی رو! کیونکہ ہمارے سلف و صالحین تقویٰ و پرہیزگاری کے باوجود بھی بہت زیادہ روتے تھے۔ اور تم گناہ کرنے کے باوجود ہنستے ہو۔ (امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ)
بلکہ تم لوگوں کو تو گناہ کا احساس تک نہیں ہوتا اے ہنس ہنس کےگناہ کرنے والو! یاد رکھو جو دنیا میں ہنس ہنس کےگناہ کرتا ہے وہ روتے ہوۓ جہنم میں جائے گا۔
انسان یا تو اللہ کے راستے پر چل کر کامیاب ہوتا ہے یا پھر شیطان کے راستے پر چل کر تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرمایا ہے:
وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ-وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِیْلِهٖ
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یہ کہ یہ میرا سیدھا راستہ ہے تو اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ راہیں تمہیں اس کے راستے سے جدا کردیں گی۔ (سنن دارمی الحدیث: ۲۰۲)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ صرف ایک ہی سیدھا راستہ ہے، اور وہ اللہ کا راستہ ہے۔ باقی تمام راستے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
توبہ کی اہمیت
قرآن مجید میں توبہ کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۙ (التحریم:8)
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اُتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں۔
توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ لیکن توبہ کے لیے شرط یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر سچی ندامت محسوس کرے، انہیں ترک کر دے اور مستقبل میں انہیں نہ دہرانے کا عزم کرے۔
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ ہر وقت انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ انسان کو گناہوں کی طرف راغب کرتا ہے اور اسے یہ باور کراتا ہے کہ گناہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گناہ انسان کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان کے راستے پر چلنے والا انسان دنیا اور آخرت دونوں میں ناکام ہو جاتا ہے۔
اللہ کے راستے پر چلنا ہی کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ ۔ جو لوگ اس راستے پر چلتے ہیں، وہ دنیا میں بھی سکون اور کامیابی حاصل کرتے ہیں اور آخرت میں جنت کے مستحق ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ﲜ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِیْرُﭤ ۔(البروج:11)
ترجمۂ کنزالایمان: بے شک جو ایما ن لائے اور اچھے کام کئے ان کے لیے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں یہی بڑی کامیابی ہے۔
ہمیں ہر وقت آخرت کی یاد تازہ رکھنی چاہیے۔ موت اور قیامت کی یاد ہمیں گناہوں سے بچاتی ہے اور نیکی کی طرف راغب کرتی ہے۔ جو لوگ آخرت کو بھول جاتے ہیں، وہ شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعمال پر غور کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کے راستے پر چلیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے اور ہم سب کو صراط مستقیم پر دائم و قائم رکھے ۔اللہ پاک ہمیں اپنے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔