عنوان: | ایک قطرے آنسو کا بدلہ |
---|---|
تحریر: | مریدہ مفتی اعظم کَچھ (بنت عثمان ہنگورہ) |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کیا آنسوؤں کی بھی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے؟ یہ تو بس وہ پانی کی بوندیں ہیں جو انسان کے دل کی کیفیات کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کا کیا ہی بدلہ ہو سکتا ہے؟ شاید دنیا کی نظر میں آنسو کوئی قابل قدر چیز نہ ہو لیکن اللہ و رسول ﷺ کی بارگاہ میں ایسا نہیں ہے۔
بارگاہِ حق میں آنسو کا مرتبہ و منزلت کیا ہے
حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:
لاَا يَلِجُ النَارَ مَن بَكٰى مِن خَشيَةِ اللّٰهِ حَتٰى يَعُودَ اللَبَنُ فِي الفَرَعِ۔ (مکاشفۃ القلوب: 44)
ترجمہ: جو شخص خوفِ خدا سے روتا ہے وہ جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا اس طرح جیسے کہ دودھ دوبارہ اپنے تھنوں میں نہیں جاتا۔
دقائق الاخبار میں ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا، جب اس کے اعمال تو لے جائیں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہو جائے گا، چنانچہ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم ملے گا۔ اس وقت اس کی پلکوں کا ایک بال اللہ کی بارگاہ میں عرض کرے گا کہ اے رب ذو الجلال! تیرے رسولﷺ نے فرمایا تھا جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کی آگ حرام کر دیتا ہے اور میں تیرے خوف سے رویا تھا اللہ تعالیٰ کا دریائے رحمت جوش میں آئے گا اور اس شخص کو ایک اشکبار بال کے بدلے جہنم سے بچالیا جائے گا۔ اس وقت حضرت جبریل علیہ اسلام پکاریں گئے فلاں بن فلاں ایک بال کے بدلے نجات پا گیا۔ سبحان اللہ!
کاش ہماری یہ آنکھیں جو ہر روز دنیا کے غم میں دریا بہاتی ہیں، کبھی اس غنی کی بے نیازی دیکھ کر اور اپنے گناہوں کی سیاہی دیکھ کر اس غم میں بھی رو پڑیں کہ میں کس لیے بھیجا گیا تھا اور کس غفلت میں زندگی گزار دی۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔
ہدایۃ الہدایہ میں ہے کہ قیامت کے دن جب جہنم کو لایا جائے گا تو اس سے ہیبت ناک آواز میں نکلیں گی جس کی وجہ سے لوگ اس پر سے گزرنے میں گھبرائیں گے، فرمان الہی ہے:
وَ تَرٰى كُلَّ اُمَّةٍ جَاثِیَةً كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَاؕ (الجاثیۃ :28)
ترجمۂ کنز الایمان: اور تم ہر گروہ کو دیکھو گے زانو کے بل گرے ہوئے ہر گروہ اپنے نامۂ اعمال کی طرف بلایا جائے۔
جب لوگ جہنم کے قریب آئیں گے، تو اس سے سخت گرمی اور خوفناک آوازیں سنیں گے جو پانچ سو سال کے سفر کی دوری سے سنائی دیتی ہوں گی، جب ہر نبی نفسی نفسی اور حضور ﷺ امتی امتی کہہ رہے ہوں گے اس وقت جہنم سے ایک نہایت ہی بلند آگ باہر نکلے گی اور حضور ﷺ کی امت کی طرف بڑھے گی۔
آپ ﷺ کی امت اس کی مدافعت میں کہے گی اے آگ! تجھے نمازیوں ، صدقہ دینے والوں، روزہ داروں اور خوف خدا رکھنے والوں کا واسطہ، واپس چلی جا! مگر آگ برابر بڑھتی چلی جائے گی، تب حضرت جبریل علیہ السلام، یہ کہتے ہوئے کہ جہنم کی آگ امت محمدﷺ کی طرف بڑھ رہی ہے، آپ کی خدمت میں پانی کا ایک پیالہ پیش کریں گے اور عرض کریں گے: اے اللہ کے نبی! اس سے آگ پر چھینٹے مارئیے۔
پس جیسے ہی آپ آگ پر پانی کے چھینٹے ماریں گے تو وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، اس وقت آپ ﷺ جبریل سے اس پانی کے متعلق پوچھیں گے، جبریل کہیں گے حضور ! یہ خوف خدا سے رونے والے آپ کے گنہگار امتیوں کے آنسو تھے، مجھے حکم دیا گیا کہ میں یہ پانی آپ کی خدمت میں پیش کروں اور آپ اس سے جہنم کی آگ کو بجھاد ہیں۔ سبحان اللہ!
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض ہے کہ وہ ہمیں بھی دل کی ایسی رقت و پاکیزگی عطاء فرمائے کہ ہمارے آنسوں بھی اس پیالے میں شمار کیے جائیں۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلینﷺ۔
آہ ! صد افسوس ہماری غفلت:
عَيْنَى هَلْ لَّا تَبْكِيَانِ عَلَى ذَنْبي
تَنَاثَرَ عُمْرِي مِنْ يَدِي فَلَا أَدْرِي
ترجمہ: اے میری دونوں آنکھو! میرے گناہوں پر کیوں نہیں روتی ہو؟ میری عمر ضائع ہوگئی اور مجھے معلوم بھی نہ ہوا۔