عنوان: | ایک رافضی اور امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ |
---|---|
تحریر: | محمد شاہنواز عطاری جمشیدپوری |
پیش کش: | جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاھوری، موڈاسا، گجرات |
تاریخِ اسلام کی روشنی میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مابین تعلق، ادب، باہمی احترام اور اخوت ایک زریں باب ہے۔ بعض فتنہ پرور لوگ اپنی جہالت یا عناد کی وجہ سے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے درمیان خلافت یا فضیلت کے مسئلے کو بنیاد بنا کر عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ناپاک کوششوں کا ردّ علماءِ حق ہمیشہ علم و حکمت سے کرتے آئے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ جیسی جلیل القدر شخصیات نے نہ صرف دلائل کے میدان میں فتنہ پروروں کو شکست دی بلکہ ان کے شکوک و شبہات کو عقلی بنیادوں پر ایسے ردّ کیا کہ ان کے پاس کوئی جواب باقی نہ رہا۔
امام اعظم ابو حنیفہ کوفہ میں تشریف فرما تھے۔ ایک رافضی مسجد میں آگیا جو کوفہ میں ” شیطانِ طاق “ (باتونی شیطان) کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے آتے ہی پوچھا: ابو حنیفہ! تمام لوگوں میں طاقتور انسان کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ہمارے عقیدے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور تمہارے عقیدے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ رافضی نے کہا: یہ تو آپ نے الٹی بات کہہ دی۔ آپ نے فرمایا: الٹی بات تو نہیں کہی، سچی بات کہی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لیے سخت کہتا ہوں کیوں کہ انھوں نے حضرت ابوبکر کے اعلانِ خلافت کے بعد انھیں حقدارِ خلافت تسلیم کیا اور ان سے برضا و رغبت بیعت کر لی۔ تم شیعہ کہتے ہو کہ حضرت علی حق پر تھے، اور ساتھ ہی یہ کہتے ہو کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا حق چھین لیا تھا، لیکن حضرت علی میں اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنا حق لیتے۔ اس طرح تمہارے نزدیک حضرت ابوبکر زیادہ طاقتور تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر غالب تھے۔ رافضی آپ کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا اور مسجد سے کھسک لیا۔ (حضرت سیدنا امام اعظم، ص:112)
یہ واقعہ صرف ایک علمی مناظرہ نہیں، بلکہ یہ عقلی بصیرت، تاریخی حقیقت اور دینی وقار کا آئینہ دار ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں وہ بات واضح کر دی جو شاید لمبے وعظ سے بھی واضح نہ ہوتی۔ یہی وہ بصیرت ہے جو اہلِ سنت کے موقف کو علم، حلم اور حکمت کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ امام ابو حنیفہ کا یہ جواب آج کے ہر سنجیدہ طالب علم کے لیے مشعل راہ ہے کہ عقیدے کی حقانیت صرف نعروں سے نہیں، دلیل، فہم اور فطری عقل سے ثابت کی جاتی ہے۔