عنوان: | کتابی رِشتہ |
---|---|
تحریر: | محمّد عادل ماتریدی ازہری |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
انسان کے دنیا میں لوگوں سے مختلف طریقوں سے رشتے ہوتے ہیں؛ خونی رشتہ، مصنوعی رشتہ، پڑوسی رشتہ، مذہبی رشتہ۔ یہ سب رشتے انسان کو مستحکم بھی بنا دیتے ہیں، اور انسان ہمیشہ پائیدار رہتا ہے۔ مگر جب ان میں کچھ اختلاف ہو جائے تو کہیں نہ کہیں کھوٹ آ ہی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے انسان یا تو دوریاں اختیار کرنے لگتا ہے یا پھر خاموشی اوڑھ لیتا ہے۔ یوں بلندی سے پستی کی طرف بھی آ جاتا ہے۔
لیکن کتابی رشتہ صرف کتاب و قلم کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایسا رشتہ ہے کہ انسان جتنا گہرا اس سے جڑتا ہے، اتنا ہی مضبوط، پائیدار اور نفع بخش بن جاتا ہے۔
کتابی رشتہ: سوچ میں وسعت پیدا کرتا ہے، اندھیروں میں روشنی عطا کرتا ہے، تجربات کا آئینہ بن جاتا ہے، اور فکر و تدبر کا سمندر بن کر ابھرتا ہے۔ یہ رشتہ علم و حکمت کے خزانے کھولتا ہے۔ جب انسان کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ تجربات و جذبات سے گزرتا ہے، مصنف کے خیالات و افکار سے آشنا ہوتا ہے، اور ایک چھوٹی سی کتاب اسے میلوں دور کا فکری سفر کرا دیتی ہے۔ کتابی رشتہ جو وہ کچھ عطا کرتا ہے، وہ شاید صدیوں کے انسانی رشتے بھی نہ دے سکیں۔
یہ رشتہ تنہائی میں سہارا دیتا ہے، اندھیروں میں روشنی دکھاتا ہے، اور الجھنوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ یہ انسان کو فکری پختگی، اخلاقی بلندی، اور روحانی سکون عطا کرتا ہے۔ ایک اچھی کتاب زندگی کے سفر میں مشعلِ راہ بن جاتی ہے۔
آج کے دور میں، جب ڈیجیٹل اسکرینیں ہماری آنکھوں کو قید کر چکی ہیں، کتاب سے جڑا یہ رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔نلیکن سچ یہ ہے کہ مطالعہ کی عادت انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے، خیالات کو وسعت دیتی ہے، اور گفتگو کو وقار عطا کرتی ہے۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم خود بھی کتابی رشتہ کو نبھائیں، اور نئی نسل کو بھی اس محبت سے روشناس کرائیں۔ کیونکہ کتاب سے جڑنا صرف الفاظ سے تعلق بنانا نہیں، بلکہ علم، تہذیب، اور انسانیت سے رشتہ قائم کرنا ہے۔ ہم کو چاہیے کتاب سے عمیق رشتہ بنائیںنرشتہ سے حاصل ہونے والے نکات سے فائدہ اٹھائیں۔ علم و عمل کی دنیا و آخرت سنواریں۔