عنوان: | حیا ہے کہاں؟ |
---|---|
تحریر: | بنتِ عبد الرحیم صدیقی |
پیش کش: | مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد |
ہر انسان اسی خوش فہمی میں ہے کہ میرے اندر حیا ہے۔ لیکن! سوال یہ ہے کہ جب سب حیادار ہیں تو پھر یہ بے حیائیاں اتنی عروج پر کیسے پہنچ گئیں؟ آخر بے حیائی کا کارخانہ کہاں ہے اور اس کارخانے کا ذمہ دار کون ہے؟ کہیں بے حیائی ہی کو ہم حیا تو نہیں سمجھ بیٹھے ہیں؟ آئیے تفتیش کرتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ حقیقی حیاء ہے کیا؟ کیوں کہ ہم نے آج تک جتنے قسم کے لوگوں سے ملاقات کی کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں بے حیا ہوں۔ خواہ کیسے بھی ہوں لیکن حیادار ضرور ہیں۔ اور یہی چیز الجھنوں میں گرفتار کر دیتی ہے کہ کیا ہر طرح کے لوگ باحیاء ہیں؟ اگر نہیں تو بےحیائی کا اقرار کیوں نہیں کر رہے؟ اور اگر ہاں تو پھر بے حیا کون ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ لوگ بے حیائی سے نہیں بلکہ بے حیا کے لقب سے بچنے کی کوشش میں ہیں؟
خیر! پہلے حیا کے بارے میں تو معلوم کریں۔ ہمارے اسلاف نے متعدد الفاظ میں حیا کی تعریف کی ہے۔
چنانچہ امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔
اور علامہ ابن حجر کے نزدیک حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔
نیز امام غزالی فرماتے ہیں:
الحياء انقباض النفس عن القبائح و خشية اللوم فيها
ترجمہ: حیا کا مطلب ہے نفس کا برے افعال سے سمٹ جانا اور ملامت کے خوف سے رک جانا۔
اسی طرح مزید حیا کی تعریفات کی گئی ہیں۔ اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس انسان کے اندر حیا ہو وہ برائیوں سے باز رہتا ہے۔ مگر صد افسوس! کہ آج دن بدن برائیاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ نہ صرف برائیاں بلکہ برائی کرنے والے بھی خوب پاۓ جا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیا حیا باقی نہیں رہ گئی؟ اور اگر حیا ہے تو کہاں ہے؟
تو ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ حیا ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی ہے، اسی کو میسر ہوتی ہے جسے ایمان جیسی عظیم دولت دستیاب ہوتی ہے۔ اور پھر ایمان والوں میں سے بھی جس کے پاس سے ایک مرتبہ غلطی سے حیا کھو گئی تو دوبارہ اسے فراہم ہونے والی نہیں ہے۔ اور اگر حیا نہیں تو کامل ایمان نہیں۔
کیونکہ میرے کریم آقا ﷺ کا ارشاد عالی شان ہے:
الحیاء شعبة من الإيمان (مسلم 2615)
ترجمہ: حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ حیا صرف عورتوں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ ہر مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) سب کے اندر حیا کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن! افسوس آج ہم خود کو مومن یا مومنہ تو کہتے ہیں مگر حیا سے کافی دور نظر آتے ہیں۔
کیوں کہ اگر ہمارے اندر واقعی حیا ہوتی تو برائیوں کی اس طرح کثرت نہ ہوتی۔ اللّٰه رب العزت کے احکام کو اس طرح فراموش نہ کیا جاتا۔ لجپال آقا ﷺ کی نافرمانیاں نہ ہوتیں۔ مسجدیں یوں ویران نہ ہوتیں، مدارس (جو کہ اسلامی قلعے ہیں) اس قدر اداس نہ ہوتے، مال اور شہرت کی طلب نہ ہوتی، دنیا حاصل کرنے کا خواب نہ ہوتا، غریبوں اور یتیموں کی دل آزاری نہ ہوتی، کسی کی عزتیں نیلام نہ ہوتیں، شادیوں اور فنکشن میں غیرت مندوں کو جانے میں خطرہ نہ محسوس ہوتا۔ اپنی عزت کی حفاظت کرنا اتنا زیادہ مشکل نہ ہوتا، والدین کو اولاد سے خوف نہیں کھانا پڑتا وغیرہ وغیرہ جتنی برائیاں ہیں سب حیا کے رخصت ہو جانے کی وجہ سے ہیں۔ اگر ابھی بھی شک ہے تو ذرا بتائیں کیا یہ ساری برائیاں صرف غیروں میں پائی جاتی ہیں؟ کیا جو لوگ مومن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ان برائیوں سے باز رہتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر خود کو باحیا کیوں کہتے ہیں؟
کیا حیا صرف لوگوں سے شرمانے کو کہتے؟ نہیں نہیں! بلکہ حقیقی حیا تو رب تعالیٰ سے حیا کرنا ہے۔ کیونکہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اللّٰه عزوجل اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے حیا کرو۔ اور یقیناً جب بندہ اپنے رب سے حیا کرنے لگے گا تو پھر وہ ان برائیوں سے باز رہے گا۔ اس کی خلوت اور جلوت ایک رہے گی۔ وہ اپنے رب سے ڈرے گا۔ اسے دنیا ہیچ لگے گی۔ اس کا مقصد مال اور شہرت قطعی نہیں ہوگا۔
آج تمام برائیوں کی جڑ بے حیائی ہے اور اسی بے حیائی کی وجہ سے بندے کے اندر قوت ایمانی کم ہوتی جا رہی ہے۔ پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ در حقیقت آج لوگ بے حیائی سے نہیں بلکہ بے حیا کے لقب سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لفظِ بے حیا کو گالی اور بے حیائی کو فیشن و رسم و رواج کا نام دے دیا گیا ہے۔
مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ جس بندے کو رب تعالیٰ کے فضل سے ایمان جیسی قیمتی دولت ملی تو گویا اسے دنیا و آخرت کا سب سے بڑا خزانہ ملا ہے اور اس کی کنجی حیا ہے۔ اب اگر اس نے اپنی حیا کو سنبھال کر رکھا تب تو اس کا خزانہ محفوظ ہے۔ لیکن اگر غلطی سے بھی کنجی گم گئی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دن وہ نعوذ بااللّٰه خزانے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اور یہ اس کے لیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔
کسی شاعر نے کہا ہے:
اگر حیا نہ رہی دل میں بندۂ مومن کے
تو پھر یقین کی شمعیں بھی بجھتی جاتی ہیں