عنوان: | حضور بحر العرفان کی تصنیفی خدمات |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
اشاعتِ علم علماے دین کا اہم فریضہ ہے، جس کے لیے علما نے مختلف جہات میں کام سرانجام دیے ہیں، جیسے تقریر، تبلیغ، تصنیف و تالیف اور تدریس وغیرہ۔
کچھ علما وہ ہیں جنھوں نے کئی اعتبار سے دین کی خدمت کی، کچھ نے صرف تصنیفی میدان اپنایا، جب کہ بعض علما نے تصنیف کے ساتھ تقریر کو بھی اشاعتِ علم کا ذریعہ بنایا۔
یوں تو دورِ نبوی سے اب تک لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، خود صحابیِ نبی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی احادیث کو لکھا کرتے تھے۔ دورِ صحابہ کے بعد باقاعدہ مختلف طرز پر کتبِ احادیث لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
آگے چل کر حدیث کی شروحات، علمِ فقہ، علمِ تصوف اور اس طرح کے بیسویں موضوعات پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔
ہمارے بزرگانِ دین ربِّ پاک کی بارگاہ میں خصوصیت کے ساتھ دعا کرتے تھے کہ اچھی کتابیں لکھنے کی توفیق نصیب ہو۔ چناں چہ امام ابو حاتم عمر بن احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اپنے زمانے کے علمِ حدیث کے زبردست عالم ابو عبد اللہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے زمزم کا پانی پیا اور دعا کی؛ اے اللہ! میں تجھ سے اچھی کتابیں لکھنے کی توفیق کا سوال کرتا ہوں۔ (حیاۃ التابعین، صفحہ: 1355)
اللہ پاک ہمیں بھی حسنِ تصنیف کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔
تحریر ایک ایسی نعمت ہے جس کے ذریعے سے دین و سنت کا خوب کام کیا جا سکتا ہے۔ لکھنا اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ مرنے کے بعد بھی لکھی گئی تحریر کا فائدہ پہنچتا ہے۔
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انسان کی اولاد ہونی چاہیے جو اس کے بعد ذکر اللہ کرتی رہے اور اسے اجر ملتا رہے یا ایک کتاب تصنیف کر دے کہ عالم کی تصنیف ہمیشہ رہنے والی اولاد ہے، کہ دوسرے لوگ اس سے نقل کرتے رہتے ہیں، اس طرح مصنف ہمیشہ زندہ رہے گا۔ (کتابوں کے عاشق، صفحہ: 46 تا 50، مطبوعہ: صابیا پبلیکیشن)
ماضی قریب کے کئی علما نے تصنیف و تالیف کے ذریعے دینِ متین کی خدمات انجام دیں، اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ماضی قریب کے مشہور صوفی بزرگ، استاذ العلماء، زینت الصوفیاء، حضور بحر العرفان، مفتی آفاق احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
جن کی زندگی کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ آپ نے تبلیغِ دین کے لیے نہ صرف تقریر کے لیے مختلف شہروں اور ملکوں کے دورے کیے بلکہ انفرادی و اجتماعی کوشش کے ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی کئی یادگاریں چھوڑیں ہیں، جن سے آج بھی لوگ استفادہ کر رہے ہیں۔
آپ نے کئی مدارس قائم کیے، کئی مقامات پر درسِ تصوف شروع کروایا، مختلف مدارس کی سرپرستی فرمائی، تدریس کے فرائض انجام دیے، بلکہ اسکولز بھی قائم کیے تاکہ طلبہ کو دینی و دنیوی دونوں تعلیم دی جا سکے، کئی شہروں میں تصوف کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے خانقاہیں قائم فرمائیں۔
ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی خدمات کو لوگوں میں بیان کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ علماے اہلِ سنت نے دینِ متین کی اشاعت کے لیے دیگر جہات کے ساتھ تصنیفی میدان میں بھی عظیم خدمات سرانجام دی ہیں۔
آئیے اسی سلسلے میں حضور بحر العرفان کی تصنیفی خدمات جانتے ہیں: بحر العرفان سمات و جہات، ص 173 پر ہے: بے شمار مصروفیات کے باوجود مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تقریباً 60 کتابیں حضرت علیہ الرحمہ کی قلمی یادگار ہیں، جن میں اکثر تصوف اور صوفیاے کرام کے احوال پر مشتمل ہیں۔ آپ کا کوئی لمحہ بھی مشغولیت سے خالی نہ ہوتا، بلکہ حالتِ سفر میں بھی کبھی کتب بینی، تصنیف و تالیف، اور اوراد و وظائف کا شغل جاری رہتا۔
خیر الاذکیا، علامہ محمد احمد مصباحی فرماتے ہیں: حیرت یہ ہے کہ مذکورہ جملہ مصروفیات (درس و تدریس، تبلیغی دورے، مدارس کے انتظام وغیرہ کی مصروفیات) کے باوجود مفتی صاحب نے قرطاس و قلم سے بھی رشتہ مضبوط رکھا۔ تقریباً پچاس کتابیں لکھیں، جو تصوف و طریقت سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ دیگر موضوعات و علوم پر تو بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں لیکن آدابِ ذکر و مراقبہ اور اسرارِ تصوف کی طرف توجہ بہت کم ہے، اس لیے اپنے قلم کا محور اسی کو بنایا۔ (حضور بحر العرفان سمات و جہات، صفحہ: 75)
مولانا تطہیر احمد رضوی فرماتے ہیں: آپ نے تحریری اثاثہ بھی چھوڑا ہے، جس میں تمام تر کتابیں اصلاح و موعظت اور سلوک و معرفت کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہ تحریریں اتنے آسان پیرائے میں ترتیب دی گئی ہیں کہ قارئین کو ان سے استفادے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی اور بحسن و خوبی ہر عام و خاص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ (حضور بحر العرفان سمات و جہات، صفحہ: 101)
اللہ رب العزت نے حضور بحر العرفان رحمۃ اللہ علیہ کو فنِ تصنیف و تالیف میں مہارتِ کاملہ عطا فرمائی تھی۔ مختلف موضوعات پر آپ نے کئی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
حضور بحر العرفان کی تصانیف:
مطبوعہ کتب: (1) آدابِ طریقت (2) سلسلہ نقشبندیہ اور اس کا سلوک (3) حضرت مجدد الف ثانی اپنے کمالات اور دینی خدمات کے آئینے میں (4) سہروردیہ: تذکرہ مشائخِ مجددیہ (5) ذکر و فکر (6) تذکرہ مشائخِ سہروردیہ (7) نغمات بحر العرفان (مجموعہ نعت و منقبت) (8) الصلاح والفلاح (9) علماے آخرت (10) تربیت اہلِ سلوک (11) صوفیہ اور ان کے معارف (12) تصوف اور اس کے فوائد (13) تجدید الف ثانی (تین جلدیں) (14) خصائص نقشبندیہ (15) تحدیثِ نعمت وغیرہ۔
غیر مطبوعہ کتب:
(1) شرح ملا حسن (2) شرح اصول الشاشی (3) شرح میزان الصرف (4) کشف و الہام کی شرعی حیثیت (5) شطحیات اور ان کے اسباب (6) معارفِ مجدد (7) اصطلاحاتِ تصوف (8) صغروی سادات اور ان کی خدمات (9) غوثیت و مداریت (10) تصوف اور اس کے فوائد (11) کشف و الہام کی شرعی حیثیت (12) حدیثِ تجدید (13) داغہائے دل (14) خصائص نقشبندیہ (15) سلاسل اور ان کے اسبابِ اختلاف (16) شرح اصطلاحاتِ تصوف (17) نبوت و ولایت (18) ترجمہ مبدأ و معاد (19) ترجمہ مقامات احمدیہ سعیدیہ (20) مشائخِ نقشبندیہ اور تحفظِ سنیت (21) ترجمہ ردّ شیعیت (22) ترجمہ سمعات (23) روائح سکینہ: ترجمہ لطائف مدینہ (24) رسالہ فوائد کشف (25) مہتمم و معلم کے آداب (26) ارشاداتِ مشائخ (27) حضرتِ مجدد کی بعض کرامتیں (28) نجدیت: اپنے افکار و اعمال کے آئینے میں (29) عظمتِ صحابہ (30) دعوت الی اللہ (31) موصل المرید الی المراد (عربی) (32) ترجمہ رسالہ اثبات النبوۃ وغیرہ۔
وفات سے کچھ دنوں پہلے حضرت نے ایک رسالہ مبنی بر عقائدِ اہلِ سنت و جماعت اور ایک کتاب حضرت سید بہاء الدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مقامات پر بھی قلم بند فرمایا۔ (بحر العرفان سمات و جہات، صفحہ: 445)، (مقدمہ: تصوف اور اس کے فوائد، صفحہ: 36)
مذکورہ تصانیف کے ناموں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت بحر العرفان رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں صرف تصوف کے موضوع پر نہ تھیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ درسِ نظامی کی شروحات تک حضرت نے لکھی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت کا علمی مقام بھی بہت بلند و بالا تھا، ورنہ درسی کتاب کی شرح لکھنا کوئی عام فارغ التحصیل کا کام نہیں کہ قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کردیا۔ بلکہ اس کے لیے ڈھیر سارا علم ہونا ضروری ہے، اس کے دیگر حواشی و شروحات پر نظر ہونا بھی، تاکہ ان کی عبارتوں کی وضاحت اچھے انداز میں پیش کی جا سکے۔
حضور بحر العرفان رحمۃ اللہ علیہ کی اکثر کتابوں کا موضوع تصوف ہے، کیوں کہ آپ نے اپنی زندگی تصوف کے لیے گویا وقف کردی تھی، اسی کے لیے رات دن کوشاں رہتے۔
خود فرماتے ہیں: حضور مرشدی، عارف باللہ، مولانا شاہ احمد رضا خاں دام ظلہ کے دامن سے وابستہ ہونے کے بعد قلب و ذہن کا رخ ایک دم بدل گیا اور یہ ارادہ کر لیا کہ الجامعۃ الاحمدیہ کے انتظام و اہتمام اور دیگر دعوت و تبلیغ وغیرہ کے کاموں سے جو بھی وقت بچے گا، اس میں صرف تصوف کی خدمت کریں گے، کیوں کہ دیگر علوم پر کام کرنے والے بحمدہ تعالیٰ بہت اہلِ علم و قلم آج موجود ہیں۔ (سلسلہ نقشبندیہ اور اس کا سلوک، صفحہ: 5)
اس سلسلے میں حضرت نے کئی کتابیں لکھیں، مگر ان میں سب سے جامع اور ضخیم کتاب بنام تصوف اور اس کے فوائد ہے۔
اس میں خاص طور پر ان چیزوں کا ذکر ہے: کہ تصوف کی اصل کیا ہے، حقیقی صوفی بننے کے لیے کن کن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے؟ ظاہر و باطن کی اصلاح کیسے کریں؟ اور باطنی عیوب کا تفصیلاً ذکر۔
مولانا سید نور عالم مصباحی لکھتے ہیں: 630 صفحات پر مشتمل حضور بحر العرفان کی ایک مبسوط تحریر ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے:
پہلے حصے میں تصوف کے تیرہ فوائد، تصوف کی تعریف، غرض و غایت، مادہ اشتقاق، اور مشہور صوفی خانوادوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس حصے کے آخر میں سلوک و جذبہ کی تعریف اور دونوں کے مابین فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
دوسرے حصے میں سلوک کے مقاماتِ عشرہ (توبہ وغیرہ) کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
آخر میں چند اچھی اور بری عادتیں ذکر کر کے کتاب کا خاتمہ ہوا ہے۔
اس کتاب میں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی اور حضرت مجدد الف ثانی رحمہما اللہ کے مکتوبات سے خصوصی طور پر استفادہ کیا گیا ہے۔ حضور بحر العرفان کی تحقیقات و تجربات سے کتاب قدیم و جدید کا مرقع بن گئی ہے۔ (تصوف اور اس کے فوائد، صفحہ: 36، 37)
حضرت بحر العرفان رحمۃ اللہ علیہ کا تعلق چونکہ سلسلہ نقشبندیہ سے تھا، اور آپ لوگوں کو مرید بھی اسی سلسلے میں کرتے تھے، اسی لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے حد درجہ محبت تھی۔
آپ نے مجدد پاک رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور سلسلہ نقشبندیہ پر کئی جہات سے کتابیں اور رسائل تصنیف فرمائے ہیں۔ جن میں تجدید الف ثانی سب سے ضخیم ترین کتاب ہے، جو تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اپنی موضوع پر نہایت اہم اور بہترین کتاب ہے۔
آپ نے اردو کے ساتھ عربی میں بھی کتابیں لکھی ہیں، کچھ رسائل کا اردو ترجمہ بھی کیا ہے، جنھیں ناموں کی فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ