عنوان: | فلسطینی مطلب: جذبۂ ایمانی |
---|---|
تحریر: | سیدہ عائشہ رضویہ |
سرزمینِ فلسطین کی عظمت و بلندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر کوئی اس کی عظمت کو جانتا ہے، البتہ خاص طور پر دو قومیں ایسی ہیں جن کے نزدیک یہ بہت اہمیت کی حامل ہے: مسلمان و یہودی۔
پر کیوں؟ اس لیے کہ وہاں مسجدِ اقصیٰ موجود ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک: مسجدِ اقصیٰ، جو انبیاء کرام کی سرزمین ہے اور مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ یہی وہ مسجد ہے جہاں سے سرکارِ دوعالم ﷺ سفرِ معراج پر تشریف لے گئے۔ مسجدِ اقصیٰ صرف ایک تاریخی مسجد نہیں، بلکہ اسلامی شناخت، ایمان اور عقیدے کی علامت ہے۔
یہودیوں کے نزدیک: یہودی اسے اپنی تاریخ کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ یہودی مسجدِ اقصیٰ کو Temple Mount کہتے ہیں، اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا ہیکلِ سلیمانی تھا۔
یہ ان کی تاریخی عبادت گاہوں میں سب سے مقدس مقام ہے۔ اس سرزمین کو صلاح الدین ایوبی نے فتح کیا، اور نہ صرف صلیبیوں کے ظلم کو ختم کیا، بلکہ ان کے ہر ظلم کا جواب عدل، انصاف اور رحم سے دیا۔
یہودیوں کا دعویٰ صرف تاریخی دعویٰ ہے۔ نہ انھوں نے حکومت کی، نہ حفاظت، اور نہ ہی انصاف۔
آج قابض حکومت (اسرائیل) نے اس پر زبردستی قبضہ کیا ہے، نہ کہ حق و عدل سے۔ پر فلسطینی اس زبردستی کی گئی حکومت کا جواب اپنی ہمت، عزم و حوصلے سے دے رہے ہیں۔ وہاں کا ہر فرد، یہاں تک کہ بچہ بچہ، مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے لڑ رہا ہے۔
7 اکتوبر 2023ء سے جو لڑائی شروع ہوئی، اس کا مقابلہ تنہا فلسطینی کر رہے ہیں۔ کیا مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کرنا صرف ان کا ہی فرض ہے؟ آج تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں، لیکن افسوس! صد افسوس! کہ سب اپنی اپنی جگہ آرام سے بیٹھے ہیں۔
حدیثِ پاک کا مفہوم ہے:
اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی مسلمان تکلیف میں ہے۔ جیسے آج فلسطین کے بچے، مائیں، بزرگ۔ تو ہمیں ایسا محسوس ہونا چاہیے جیسے ہم خود زخمی ہیں، ہم خود بے گھر ہیں، ہم خود پریشان ہیں۔
پر کیا 57 اسلامی ممالک اس حدیثِ پاک پر عمل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں؟ یہ حدیثِ پاک ہمیں سمجھاتی ہے کہ صرف دعا نہ کریں، بلکہ جس سے جتنا ممکن ہو، اس کے مطابق مدد کریں۔
پر افسوس! کہ وہ سارے لوگ اپنی بے غیرتی کو چھپانے کے لیے بس چند الفاظ کہہ کر اپنا پلو جھاڑ دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔
ایک تصویر میں وہ ننھی بچی اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھے، فلسطین کا جھنڈا بلند کر رہی تھی۔ ایسے کئی سارے بچے ہیں جن سے ان 57 اسلامی ممالک کو شجاعت اور غیرت سیکھنی چاہیے۔
ان سے سیکھنا چاہیے کہ ایک مسلمان کیا ہوتا ہے۔ ان سے سیکھنا چاہیے کہ شجاعت و ہمت کیا ہوتی ہے۔ ان سے سیکھنا چاہیے کہ دین کے لیے دشمنوں کے سامنے کیسے ڈٹا جاتا ہے، اور اپنے حق کے لیے کیسے لڑا جاتا ہے۔