✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

سفر خیر

عنوان: سفر خیر
تحریر: عنبر برکاتی

جب دل کو خیر کی توفیق مل جائے تو انسان کو لگتا ہے، اب تو بس خیر ہی خیر ہے۔ ربِ قدیر توفیقِ خیر عطا فرمائے تو محسوس کرنے لگتا ہے کہ شر سے واسطہ ہی نہیں پڑے گا۔ مسرور ہونے لگتا ہے، اسی میں مخمور ہونے لگتا ہے، اور شاید کچھ مغرور بھی۔

کچھ دن آگے سرکتے ہیں، شب و روز بدلتے ہیں، کئی بار دھوپ آنگن میں چمک کر ختم ہوتی ہے، شمسی و قمری کلینڈر پلٹائے جاتے ہیں، اور ان کے پلٹنے کے ساتھ ساتھ دل پر سے کچھ اور بھی پلٹتے جاتا ہے۔

دل گزشتہ زندگی کی طرف دبے پاؤں واپس پلٹنے لگتا ہے۔ نیم اندھیرے میں خیر کا نور بھی آدھا رہ جاتا ہے، اور کبھی مدھم، مدھم ہوتے ہوتے بالکل معدوم۔

انسان چلتا ہی جاتا ہے، جیسے ہمیشہ اسی شر کی راہ کا مسافر رہا ہو، کبھی خیر سے آشنا ہی نہ رہا ہو۔ زندگی برف کی مانند پگھلتی جاتی ہے، اور وہ بے خبر، غافل، مدہوش، نہ جانے کن معاملات میں الجھا رہتا ہے۔ الجھاؤ کا گراف اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کوئی ناپنے کا آلہ نظر نہیں آتا، کوئی پیمانہ ملنے سے بھی نہیں ملتا۔

اور پھر اچانک، اسی درمیان، کوئی خیر کا لمحہ ہم سے ٹکراتا ہے۔ گویا کوئی ہلکی سی دستک دے کر، دروازے کے دائیں جانب سر جھکا کر کھڑا ہو۔ اور ہم نے دستک تو سنی، مگر دستک دینے والا نہیں دیکھ سکے۔

گویا کسی نے موبائل پر بس ایک بار کال کرکے موبائل اٹھا کر رکھ دی ہو، ہم نے آواز تو سنی، مگر اسکرین پر نام نہیں دیکھ سکے۔ کسی نے دور سے ہمیں ایک پھول پیش کیا، جس کی ہم بس خوشبو سونگھ سکے، دوری کے سبب پکڑ نہیں سکتے۔

بہت ہلکا سا خیر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اتنا کہ اس کے جھروکے میں کچھ تو نظر آتا ہو، مگر سب کچھ نہیں۔ مگر یہ لمحہ ختم ہونے والا تھا۔ ہلکا، مدھم، دور۔ ہر چیز بے معنی ہو گئی۔ کچھ ہی دیر میں بہت کچھ ہو گیا۔ انسان ٹھٹک کر رک جاتا ہے۔

قدم پیچھے تو نہیں آتے، مگر آگے بڑھنے سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں۔ رکتا ہے، اطراف پر نگاہ دوڑاتا ہے۔ اتنا دور آ چکا ہے وہ شر کی طرف؟؟ دل دھک سا ہو جاتا ہے۔ یہ کیسے ہو گیا؟ وہ تو حق کا متلاشی تھا، وہ تو ہدایت کی راہ کا مسافر تھا، وہ تو خیر کی طرف گامزن تھا۔ یہ کیسے ہوا؟ کب ہوا؟

اور واپسی کا سفر کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ کبھی نفس آڑے آتا ہے اور کبھی مردود رجیم۔ گرتا ہے، سنبھلتا ہے، ٹوٹتا ہے، جڑتا ہے۔ کبھی بالکل بے سدھ ہو کر گر پڑتا ہے، پھر اٹھتا ہے، کپکپاتے قدموں سے آگے بڑھتا ہے۔ یہ خیر کا راستہ ہے، آسان نہیں ہوتا۔

تمہیں کیا لگتا ہے؟ صرف کہو گے ہم ایمان لے آئے اور تمہاری آزمائش نہ ہو گی؟ نہیں، نہیں۔ آزمائش بھی ہو گی، اور تکلیفیں بھی آئیں گی۔ بس بندہ نیت کر لے کہ یہ سفر طے کرنا ہی ہے۔

فطرتِ انسانی اسے خیر کی طرف لائے گی۔ ہر انسان فطرت پر ہی پیدا کیا گیا، اور جب تک فطرت کے مطابق انسان کے اعمال نہ ہوں، وہ سکون نہیں پا سکتا۔ ظاہر میں کچھ بھی دعویٰ کر لے، مگر طمانیت کا نور تو اطاعت میں ہی مضمر ہے۔

زندگی کتنی ہی پرتعیش کیوں نہ ہو، مقصد سے عاری ہو تو بندہ بس خالی خولی ہی کامیاب نظر آتا ہے۔ ایک کونے میں بیٹھ کر دیکھے، غور کرے، تو معلوم ہو گا کوئی اس کے اندر بیٹھا رو رہا ہے، سسک رہا ہے۔

مگر یہ سماعت ملے کہاں؟ یہ اسے ہی عطا ہو گی جسے رب چاہے، جب رب چاہے، جتنا رب چاہے۔ بیشک، جسے رب نہ چاہے، اسے نور نہیں مل سکتا اور نور دل کی خواہشات کو مارے بغیر نہیں ملتا۔

تمازت سے بھرپور فضاؤں میں اسے میں نے لکھا، ایک ایسی چھت کو تکتے ہوئے، جس میں لٹکتے ہوئے پنکھے سے نکلتی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے مجھے شکر ادا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں