عنوان: | اہل سنت کے دو عظیم پیشوا |
---|---|
تحریر: | حسین رضا اشرفی مدنی |
پیش کش: | ماڈل جامعۃ المدینہ، ناگ پور، دعوت اسلامی |
ماضی قریب میں جن علما ومشائخ نے دین و سنیت کا بڑے پیمانے پر کام انجام دیا اور ہزاروں لاکھوں افراد کی ہدایت کا ذریعہ بنے، ان میں:
شہزادہ اعلی حضرت، امام العلما، مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مصطفی رضا خاں نوری علیہ الرحمہ اور جانشین اعلی حضرت، سلطان المشائخ، مخدوم العلما سید محمد مختار اشرف اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ (المعروف بہ سرکارکلاں) کا نام بہت ہی نمایاں ہے۔
دونوں حضرات نے اپنی پوری زندگی مسلک اعلی حضرت کی ترویج واشاعت کے لیے وقف کردی تھی کیوں کہ ان کی زندگی کا مقصد اور مشن ایک ہی تھا کہ جہاں بھر میں اہل سنت کا بول بالا ہو۔ نیز دونوں ہی حضرات اہل سنت کے مقتدا، اہل قلوب کے پیشوا، امام الاتقیا، اور روحانیت کے تاج دار تھے، ایک بریلی شریف کے مسند نشین تھے تو دوسرے کچھوچھہ مقدسہ کے مسند پر جلوہ فرما۔ دونوں کا حلقہ ارادت بھی نہایت ہی وسیع تھا۔
اور ان سب پر مستزاد یہ کہ ان دونوں ہستیوں میں جو محبت اور باہمی الفت تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔
ان شاءاللہ ان دونوں بزرگ ہستیوں کی تفصیلی سیرت مستقل مضمون کی صورت میں پیش کی جائے گی، اس مضمون میں دونوں بزرگوں کی باہمی محبت کے کچھ واقعات بیان کرنا مقصود ہے، جن کو پڑھ کر دل کی کلیاں کھل اٹھیں اور اکابر کی محبت میں اضافہ ہو۔
حرمین شریفین میں اقتدا
غالبا 1972ء کی بات ہے کہ جب حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ زیارت حرمین شریفین کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ کے ساتھ بہت سے عقیدت مند بھی تھے، حسن اتفاق اسی سال سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بھی اپنے معتقدین کے ہمراہ حرمین طیبین کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مسجد نبوی میں حضرت سرکار کلاں علیہ الرحمہ اپنی جماعت کرتے، سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ بھی اپنے عقیدت مندوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہوتے۔ ایک دن سرکار کلاں علیہ الرحمہ نے مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے اصرار کیا کہ آپ امامت کرائیں، مگر سرکار مفتی اعظم ہند نے جواب دیا: میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ ایک آل رسول کی اقتدا میں حرم نبوی میں چند اوقات کی نماز ادا کرنے کا موقع ملا جائے۔ اسی طرح سرکار مفتی اعظم ہند نے سیدنا سرکار کلاں کی اقتدا میں چالیس نمازیں ادا کیں۔ (معارف شیخ اعظم، ج: 1، ص: 112، جمعیۃ الاشراف کچھوچھہ)
ایک کام میں نے کیا، دوسرا آپ کیجیے: نبیرہ سرکار کلاں قائد ملت علامہ سید شاہ محمود اشرف اشرفی دام ظلہ العالی اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیان فرماتے ہیں: جسے مفہوما یہاں بیان کیا جاتا ہے: جامعہ نعیمیہ اہلِ سنت وجماعت کا ایک عظیم ادارہ ہے جسے صدرالافاضل نے قائم کیا ہے۔ اُس ادارے کے دو سرپرست تھے: ایک حضور سرکارِ کلاں، اور ایک مفتیِ اعظم ہند علیہما الرحمہ۔ یعنی ایک بریلی شریف سے اور ایک کچھوچھہ شریف سے، یہ دونوں حضرات سرپرست رہے، اور تاحیات سرپرست رہے۔ یہ دونوں حضرات جامعہ کی دستار بندی کے وقت جامعہ میں آتے تھے، دونوں سرپرست مرید بھی فرماتے تھے۔
تو میں نے جو دیکھا کہ دن بھر شہر میں لوگوں کی دعوتیں، یہاں وہاں جانا، حضرت مفتی اعظم ہند اپنے حلقۂ ارادت میں مصروف رہتے تھے۔ اور حضور سرکارِ کلاں اپنے حلقۂ ارادت میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن شام کا وقت ایک ایسا وقت ہوتا تھا کہ جامعہ میں خود دور دراز سے بہت سے مہمان آتے تھے، لہذا وہاں پر دونوں حضرات ( حضور مفتی اعظم اور سرکار کلاں) جمع ہوتے تھے۔ ایک کمرے میں سرکار کلاں علیہ الرحمہ کی مسند ہوتی تھی، دوسرے کمرے میں مفتیِ اعظم علیہ الرحمہ کی مسند ہوتی تھی، دونوں بیٹھے ہوتے تھے، پھر لوگ ملاقات کرتے تھے، اکتساب فیض کرتے تھے۔
یقیناً مفتیِ اعظم ہند اور سرکارِ کلاں کو میں نے قریب سے دیکھا: دونوں میں بے پناہ محبت، اور قلبی رشتہ بہت زیادہ تھا۔ ایک روز میں بھی وہاں جامعہ میں تھا۔ سرکار مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کا کمرہ 10 قدم کے فاصلے پر تھا، اور سرکارِ کلاں علیہ الرحمہ نے جس کمرے میں قیام کیا تھا، وہ مسجد سے بالکل متصل تھا، بس کمرے سے نکلیے اور مسجد میں داخل ہو جائیے۔ میں نے دیکھا کہ ابھی کافی اچھا خاصا وقت تھا مغرب کی اذان میں۔ حضور مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ کمرے سے نکلے اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مسجد میں پہنچ گئے۔
ابھی ٹائم تو ہوا نہیں تھا، اذان بھی ہوئی نہیں، تو میں نے کہا: حضور! ابھی اذان نہیں ہوئی ہے۔ تو آپ نے فرمایا: ہاں، مجھے معلوم ہے اور مسجد کے صحن میں وہیں صدرالافاضل علیہ الرحمہ کا مزار بھی ہے۔ تو سرکار مفتی اعظم ہند مزار پر گئے، فاتحہ پڑھ کے باہر نکلے۔ اب وقت ہو گیا تھا، اور زینے کے پاس جا کر خود اذان دینا شروع کر دی۔ ابھی کسی کو معلوم تو تھا نہیں کہ مفتی اعظم کیا کرنے والے ہیں۔ جیسے ہی اذان ہوئی تو حضور سرکارِ کلاں بھی باہر نکلے، اب جب جماعت کا وقت ہوا تو (مفتیِ اعظم نے فرمایا) آپ پڑھائیے، سرکار کلاں نے فرمایا کہ: نہیں، آپ پڑھائیے، پھر یہ سلسلہ شروع ہوا۔ تو آخر میں مفتیِ اعظم ہند نے کہا: ایک کام میں نے کر دیا ہے، اذان میں نے دے دی ہے، نماز آپ پڑھا دیجیے دیکھیے! دونوں بزرگوں کے درمیان تعلق دیکھیے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر محبت اور تعلق کا رشتہ تھا۔ تو یہ ہمارے اکابرین تھے، اور ہم سب کو بھی اسی سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
سرکار کلاں کا اظہارِ محبت
محبت و تعظیم کا یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا، بلکہ حضور مخدوم المشائخ، مرجع العلما سرکار کلاں علیہ الرحمہ بھی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے بے حد محبت فرماتے اور آپ کی مدح وثنا کیا کرتے تھے، چناں چہ سرکار کلاں فرماتے ہیں:
حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ بلا شبہ ان ہی اکابرین میں سے تھے جو دین و سنیت کو فروغ دینے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت کی پوری زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ہی ڈالے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ خلوص وللہیت ان کی شخصیت کا ٹریڈ مارک تھا۔ ان کا کوئی قول یا عمل میری نگاہ میں ایسا نہیں ہے جو خلوص و للہیت سے عاری ہو۔ وہ اگر ایک طرف متبحر عالم مستند اور معتر فقیہ مختلف علوم و فنون کے ماہر اور شعر وادب کے مزاج آشنا تھے تو دوسری جانب ریاضت و عبادت، مکاشفه و مجاہدہ اور اسرار باطنی کے بھی محرم تھے۔ (جہان مفتی اعظم ہند، ص: 1000، شبیر برادرز)
مفتی اعظم ہند کی نماز جنازہ
یہاں ایک ضروری امر کی وضاحت بھی کردوں کہ سرکار مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ بھی حضور سرکار کلاں علیہ الرحمہ نے ہی پڑھائی ہے، چناں چہ : شہزادہ اعلی حضرت علامہ سبحانی میاں فرماتے ہیں: مجھ فقیر رضوی کے والد ماجد حضور ریحان ملت سیدی علامہ شاہ الحاج مفتی محمد ریحان رضا خان صاحب نور اللہ مرقدہ سرکار کلاں علیہ الرحمہ سے قلبی محبت فرماتے اور ان کے ادب و احترام میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑتے میرے جد کریم حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ الحاج مفتی مصطفیٰ رضا خاں صاحب رضی اللہ عنہ کا جب وصال مبارک ہوا تو میرے والد ماجد علیہ الرحمہ نے آپ (سرکار کلاں) ہی کو نماز جنازہ کی امامت کے لیے منتخب فرمایا اور حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی خواہش کے مطابق کہ میرے جنازہ کی نماز کوئی سید صاحب پڑھائیں ۔ آپ ہی سے نماز جنازہ پڑھوائی۔ (ماہنامہ غوث العالم کا سرکار کلاں نمبر، ص: 32، کچھوچھہ مقدسہ)
اسی بات کو قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: موسوعہ اسلامیہ، ج: 21، ص 77، دار الکتب، دہلی
معزز قارئین! ان واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکار مفتی اعظم ہند اور حضور سرکار کلاں علیہما الرحمہ کے مابین کس قدر محبت و احترام کا رشتہ تھا، لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے اکابر کی قدر کریں، تمام ہی سنی مشائخ سے محبت رکھیں اور سبھی علماے اہل سنت کا دل سے احترام کریں۔
اللہ پاک ان پاکیزہ نفوس کے صدقے میں اہل سنت میں اتفاق و اتحاد، اور باہمی محبت والفت نصیب فرمائے۔ آمین