✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

عید غدیر منانا کیسا؟

عنوان: عید غدیر منانا کیسا؟
تحریر: حسین رضا اشرفی مدنی
پیش کش: ماڈل جامعۃ المدینہ، ناگ پور، دعوت اسلامی

اسلام میں عید غدیر کا کوئی تصور نہیں، یہ روافض کی من گھڑت عید ہے جس کی ابتدا 352 ھ میں ہوئی۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ روافض کا ماننا ہے کہ اس دن غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے من کنت مولاہ فعلی مولاہ فرما کر حضرت مشکل کشا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنی خلافت بلا فصل عطا فرمائی۔ لہذا اس دن روافض مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت بلا فصل کا جشن مناتے ہیں۔

حالاں کہ یہ نظریہ قرآن و سنت اور اجماع امت بلکہ خود فرامین مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف ہے۔ لہذا عید غدیر منانا ہرگز ہرگز ہرگز جائز نہیں۔

عید غدیر روافض کی ایجاد ہے جیسا کہ امام شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ ( م: 748ه‍) لکھتے ہیں:

وفيها يوم ثامن عشر ذي الحجة، عملت الرافضة عيد الغدير، غدير خم، ودقت الكوسات (العبر في خبر من غبر، سنة اثنين وخمسين وثلاث مأة، ج: 2، ص: 90، دار الكتب العلمية بيروت)

ترجمہ: 18 ذی الحجہ 352ھ کو روافض نے عید غدیر منایا اور ڈھول بجایا.

امام ابن اثیر جزری علیہ الرحمہ (م: 630ھ) لکھتے ہیں:

في الثامن عشر ذي الحجة، أمر معز الدولة بإظهار الزينة في البلد، وأشعلت النيران بمجلس الشرطة، وأظهر الفرح، وفتحت الأسواق بالليل، كما يفعل ليالي الأعياد۔ (الكامل في التاريخ، ج: 7، ص: 245، مطبوعہ دار الکتاب العربی)

ترجمہ: 18 ذی الحجہ کو معز الدولہ نے شہر میں زینت کرنے کا حکم دیا اور پولیس کے محکموں میں چراغا کیا گیا اور خوب خوشی منائی گئی اور رات میں بازار کھول دیے گئے جیسا کہ عید کی راتوں میں کھولے جاتے ہیں۔

امام ابن کثیر دمشقی ( متوفی: 774ھ) لکھتے ہیں:

في ثامن عشر ذي الحجة منها أمر معز الدولة بإظهار الزينة ببغداد وأن تفتح الأسواق بالليل كما في الأعياد، وأن تضرب الدبادب والبوقات، وأن تشعل النيران بأبواب الأمراء وعند الشرط ; فرحا بعيد الغدير - غدير خم - فكان بدعة ظاهرة منكرة۔ (ملتقطا) (البداية والنهاية، ص: 15، مطبوعہ: دار ھجر)

ترجمہ: 352 ہجری میں 18 ذی الحجہ کو معز الدولہ نے عید غدیر سے خوش ہو کر بغداد میں زینت کرنے اور عید کی طرح راتوں میں بازار کھولنے، ڈھول باجا بجانے اور امرا کے دروازوں پر اور پولیس محکموں میں چراغا کرنے کا حکم دیا اور یہ کھلی ہوئی بری بدعت ہے۔

معز الدولہ ایک رافضی بادشاہ تھا جو صحابہ کرام پر سب وشتم کا حکم دیتا تھا، جیسا کہ وفیات الاعیان لابن خلکان میں ہے:

كتب عامة الشيعة ببغداد بأمر معز الدولة على المساجد سب الصحابة۔ (وفيات الأعيان، ترجمة معز الدولة بن بویہ، ج:1، ص:407، دار صادر)

ترجمہ: اور اکثر روافض نے بغداد کے اندر معز الدولہ کے حکم سے مساجد پر صحابہ کرام کو گالیاں لکھی۔

عید غدیر منانا اسلام کو مشکوک قرار دینا ہے پیارے اسلامی بھائیوں عید غدیر منانا دین اسلام کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے، کیوں عید غدیر منانا حضرت سیدنا و مولانا صدیق اکبر کے خلیفظ اول، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم کے خلیفہ ثانی، اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلیفہ ثالث ہونے کا انکار کرنا، اور حضرت سیدنا و مولانا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کو خلیفہ بلا فصل ثابت کرنا ہے۔

.

جب کہ تمام صحابہ کرام نے خلفاے ثلاثہ کی بیعت کی، لہذا مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل ثابت کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ معاذ اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک ناحق چیز پر اتفاق کیا اور اگر صحابہ کرام کا کسی ناحق چیز پر اتفاق ممکن مان لیا جائے تو اسلام کی بنیاد ہی ختم ہو جائے گی کیوں کہ پھر معاذ اللہ کوئی شخص یہ بھی کہ سکتا ہے کہ جب صحابہ کرام نے خلافت جیسے عظیم معاملہ میں حدیثوں کو چھپایا اور ناحق اور باطل چیز پر اتفاق کیا تو دیگر چیزوں میں ان کا کیا اعتبار۔ اور اگر صحابہ کرام کا ہی اعتبار ساقط ہو جائے تو پھر دین اسلام بھی نہ بچ سکے گا کیوں کہ دین اسلام انہیں صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچا۔

لہذا ہم سنی حضرت مولاے کائنات علی المرتضی مولا مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کی عظمتوں پر جان ودل سے قربان لیکن ہم وہی کہیں گے جو مولا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت میں بھی اول ہیں اور ولایت میں بھی اول ہیں

امام ابن حجر ہیتمی علیہ الرحمہ ( م: 974ه‍) لکھتے ہیں:

الرافضة قاتلهم الله بل هم أشد ضررا على الدين من اليهود والنصارى وسائر فرق الضلال كما صرح به علي رضي الله عنه بقوله تفترق هذه الأمة على ثلاث وسبعين فرقة شرها من ينتحل حبنا ويفارق أمرنا ووجهه ما اشتملوا عليه من افترائهم من قبائح البدع وغايات العناد والكذب حتى تسلطت الملاحدة بسبب ذلك على الطعن في الدين وأئمة المسلمين بل قال القاضي أبو بكر الباقلاني إن فيما ذهبت إليه الرافضة مما ذكر إبطالا للإسلام راسا لأنه إذا أمكن اجتماعهم على الكتم للنصوص وأمكن فيهم نقل الكذب والتواطؤ عليه لغرض فيمكن أن سائر ما نقلوه من الأحاديث زور۔ (الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة، ج: 1، ص: 114، مطبوعه موسسة الرسالة بيروت)

ترجمہ: روافض کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے ، بلکہ یہ دین کے لیے یہود و نصاری اور تمام گمراہ فرقوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں جیسا کہ خود سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے فرمان میں صراحت کی: یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجاۓ گی اور سب سے برا فرقہ وہ ہے جو ہماری محبت کا دعوی کرے گا اور ہمارے معاملہ سے جدا رہے گا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے انتہائی بری بدعتیں گڑھی اور بغض و عناد اور جھوٹ سے کام لیا حتی کہ اس وجہ سے ملحدین دین اسلام اور ائمہ مسلمین پر طعن کرنے لگے بلکہ قاضی ابو بکر باقلانی فرماتے ہیں کہ روافض جو (مولا علی کی خلافت بلا فصل کا) نظریہ رکھتے ہیں اس میں اصلا اسلام کو باطل کرنا ہے کیوں کہ اگر صحابہ کرام کا (مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کی) نصوص چھپانے، جھوٹ نقل کرنے اور کسی مقصد کے سبب اس پر اتفاق ممکن ہوگا تو یہ بھی ممکن ہوگا کہ ان کی تمام مروی حدیثیں جھوٹی ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں