عنوان: | امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا زہد و تقوی |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ روزانہ گیارہ لقمے سے زیادہ طعام (کھانا) ملاحظہ نہ فرماتے تھے۔ (احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 11)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ: حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی قمیص مبارک میں دو شانوں (دونوں کندھوں) کے درمیان چار پیوند لگے تھے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 102)
یہ بھی روایت ہے کہ شام کے ممالک جب فتح ہوئے اور آپ نے ان ممالک کو اپنے قدوم میمنت لزوم (آپ کی آمد ہمیشہ برکت لے کر آتی ہے) سے سرفراز فرمایا اور وہاں کے امراء و عظماء آپ کے استقبال کے لیے آے۔ اس موقع پر آپ اپنی شتر پر سوار تھے، آپ کے خواص و خدام نے عرض کیا: اے امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ! شام کے اکابر و اشراف حضور کی ملاقات کے لیے آ رہے ہیں، مناسب ہوگا کہ حضور گھوڑے پر سوار ہوں تاکہ آپ کی شوکت و ہیبت ان کے دلوں میں جاگزیں ہو۔ فرمایا: اس خیال میں نہ رہیے! کام بنانے والا اور ہی ہے۔
ایک مرتبہ قیصر روم کا قاصد مدینہ طیبہ میں آیا اور امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کو تلاش کرتا تھا تاکہ بادشاہ کا پیغام آپ کی خدمت میں عرض کرے۔ لوگوں نے بتایا کہ امیر المومنین مسجد میں ہیں۔ مسجد میں آیا دیکھا کہ ایک صاحب موٹے پیوند زدہ کپڑے پہنے ایک اینٹ پر سر رکھے لیٹے ہیں، یہ دیکھ کر باہر آیا اور لوگوں سے امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کا پتہ دریافت کرنے لگا۔ کہا گیا: مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ کہنے لگا: مسجد میں تو سوا ایک دلق پوش (فقیروں یا درویشوں کا لباس) کے کوئی نہیں ہے۔ صحابہ کرام علیہم رضوان نے کہا: وہی دلق پوش ہمارا امیر خلیفہ ہے۔ پھر مسجد میں آیا اور غور سے امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے مبارکہ کو دیکھنے لگا۔ دل میں محبت و ہیبت پیدا ہوئی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی حقانیت اس کے دل میں جلوہ گر ہو گئی۔
حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں تھا۔ آپ جب مدینے منورہ جانے کا عزم فرماتے تو آمد و رفت میں امراء و خلفاء کی طرح آپ کے لیے خیمہ نصب نہ کیا گیا؛ بلکہ راہ میں جہاں قیام فرماتے اپنے کپڑے اور بستر کسی درخت پر ڈال کر سایہ کر لیتے۔ (سوانح کربلا 60,61)
اللہ اللہ! ہمارے امیر المومنین اس طرح زہد و قناعت والے تھے۔ اُن کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی مگر پھر بھی وہ سادگی والی زندگی گزارتے تھے۔ ہمہ وقت نفس کی مخالفت کرتے تھے اور ہمیشہ رب العزت کی رضا کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔
اللہ کریم ہمیں بھی حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا صدقہ عطا فرمائے، اُن کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!