✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

محرم الحرام اور رائج خرافات

عنوان: محرم الحرام اور رائج خرافات
تحریر: محمد سفیان حنفی مصباحی
پیش کش: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے، جس کی حرمت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ. (التوبہ، آیت: 36)

ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔

مذکورہ آیت میں حرمت والے چار مہینوں کا ذکر ہے، ان میں سے تین متصل ہیں اور ایک جدا ہے؛ ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب۔ اللہ کے رسول ﷺ ماہ محرم الحرام میں روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔

سئل [أي النبي ﷺ]: أَيّ الصلاة أفضل بعد المكتوبة وأيّ الصيام أفضل بعد شهر رمضان؟ فقال: أفضل الصلاة بعد الصلاة المكتوبة الصلاة في جوف الليل، وَأفْضل الصيام بعد شهر رمضان صيام شهر الله المُحَرَّم. (صحيح المسلم، حدیث: 1163)

ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے اور رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے اور ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ تعالی کے مہینے محرم الحرام کے روزے ہیں۔

عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فراى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا يوم صالح، هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى، قال: فانا احق بموسى منكم، فصامه وامر بصيامه (صحیح البخاري، حدیث: 2004)

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسی علیہ السلام کے ( شریک مسرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنھم کو بھی اس کا حکم دیا۔

اس ماہ کو بالخصوص امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کی شہادت کی نسبت سے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ واقعہ تاریخ اسلام کا نہایت دلخراش اور سبق آموز باب ہے، جسے یاد رکھنا اور اس سے عبرت حاصل کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس واقعے کو یاد کرنے کے نام پر ایسے رسومات رائج ہو چکے ہیں جو دین اسلام کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں۔

سیاہ، سبز اور لال کپڑے پہننا

ماہ مذکورہ میں تین رنگ کے کپڑے پہننا جائز نہیں؛ کیوں کہ اہل بدعت پہنتے ہیں۔ حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: محرم میں سبز اور سیاہ کپڑے علامت سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے خصوصاً سیاہ کہ شعار رافضیاں لیام ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 23، ص: 757)

حضور صدر الشریعہ قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: عشرہ محرم میں تین رنگ کے لباس اہل بدعت پہنتے ہیں، ان تینوں سے اجتناب چاہیے، اول سرخ یا گلابی کہ یہ خوارج دشمنانِ اہل بیت اظہار مسرت کے لیے پہنتے ہیں، دوم سیاہ کہ اس کو روافض پہنتے ہیں، سوم سبز یا دھانی کہ یہ تعزیہ داروں کا شیوہ ہے، اگر کپڑا مختلف رنگ کا ہو تو وہ ان تینوں سے خارج ہے۔ (فتاوی امجدیہ، ج: 4، ص: 167)

مرثیہ، ماتم اور ڈھول بجانا

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ڈھول، تاشے، مجیرے، مرثیے، ماتم، مصنوعی کربلا کو جانا، عورتوں کا تعزیے دیکھنے کو نکلنا، یہ سب باتیں حرام و گناہ و ناجائز و منع ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 499)

سینہ کوبی اور چھری مارنا

اکثر جگہوں پہ اس حرمت والے مہینے میں لوگ سینہ پیٹتے ہیں، زنجیر اور چھری سے مارتے ہیں، یہ ناجائز و حرام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

لیس منّا مَن لَطَمَ الخُدود، وَشقّ الْجُيوبَ، وَدَعَا بدَعوَى الْجَاهليّة. (صحیح البخاري، حدیث: 1294)

ترجمہ: جس نے رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیا اور اہل جاہلیت کی طرح پکارا، وہ ہم میں سے نہیں۔

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ماتم کرنا، چھاتی پیٹنا بھی حرام ہے، حسن حسن بتشدید کہنا تو جہالت ہی تھا مگر ماتم سخت منع ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص:497)

نوحہ اور مرثیہ خوانی

اثنتان فی الناس ھما بھم کفر فی النسب و النیاحة. (صحیح المسلم، حدیث: 131)

ترجمہ: لوگوں میں دو کفر ( کی علامت ) ہیں؛ کسی کے نسب پر طعنہ اور میت پر نوحہ۔

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تحریم نوحہ ( نوحہ کے حرام ہونے ) میں احادیث متواترہ موجود ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 487)

مرثیے کے متعلق فرماتے ہیں: یہ رائج مرثیے معیصت ہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 23، ص: 100)

عَلم، تعزیہ اور مصنوعی کربلا

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: تعزیہ رائجہ مجمع بدعات شنیعہ سئیہ ہے، اس کا بنانا دیکھنا جائر نہیں اور تعظیم و عقیدت سخت حرام و اشد بدعت۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 490)

دوسری جگہ مزید فرماتے ہیں: علم، تعزیہ، بیرق، منہدی، جس طرح رائج ہیں، بدعت ہیں اور بدعت سے شوکت اسلام نہیں ہوتی، تعزیہ کو حاجت روا یعنی ذریعہ حاجت روا سمجھنا جہالت پر جہالت ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 500)

آج کل اکثر گاؤں میں مصنوعی کربلا دیکھنے کو ملتا ہے جہاں لوگ مروجہ تعزیہ لے جا کر گڈھے میں بھینک دیتے ہیں، یہ تضیع مال اور ناجائز و گناہ ہے۔ حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: یہ ساختہ کربلا مجمع بدعات ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 23، ص: 100)

چوک اور تعزیہ پہ فاتحہ

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: فاتحہ دینا جائز ہے۔ روٹی، شیرنی، شربت چاہے جس چیز پر ہو، مگر تعزیہ پر رکھ کر یا اس کے سامنے ہونا جہالت ہے اور اس پر چڑھانے کی سبب تبرک سمجھنا حماقت ہے۔ ہاں تعزیہ سے جدا جو خالص سچی نیت سے حضرات شہدائے کرام رضی اللہ عنھم کی نیاز ہو وہ ضرور تبرک ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 499)

علامہ عبد المنان اعظمی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: چوک اور تعزیہ داری سب ناجائز ہے، اس لیے وہاں فاتحہ دینا ناجائز ہے۔ شہدائے کربلا رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فاتحہ گھر میں پاک و صاف جگہ دینا چاہیے، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے چوک کو باطنی گندگی کی جگہ بتایا ہے اور وہاں فاتحہ دینے سے منع کیا۔ (فتاوی بحر العلوم، ج: 5، ص: 446)

پانی اور شربت کی سبیل

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: پانی یا شربت کی سبیل لگانا جب کہ بہ نیت محمود اور خالصا لوجہ اللہ ثواب رسانی ارواح طبیہ ائمہ اطہار مقصود کو تو بلا شبہہ بہتر و مستحب و کار ثواب ہے۔ اسی طرح کھانا کھلانا، لنگر بانٹنا بھی مندوب و باعث اجر ہے۔ مگر لنگر لٹانا جسے کہتے ہیں کہ لوگ چھتوں پر بیٹھ کر روٹیاں پھینکتے ہیں، کچھ ہاتھوں میں جاتی ہیں، کچھ زمین پر گرتی ہیں، کچھ پاؤں کے نیچے ہیں، یہ منع ہے کہ اس میں رزق الہی کی بے تعظیمی ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 521)

حضرت قاسم کی شادی اور منہدی

حضور اعلیٰ حضرت ارشاد فرماتے ہیں: نہ یہ شادی ثابت نہ یہ منہدی۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 501)

دوسری جگہ حضور اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا کہ حضرت قاسم بن حسن رضی اللہ عنھما کا نکاح جناب کبری بنت حسین سے بروزِ عاشورا بمقام کربلا میں ہوا تھا یا نہیں اور روایات صحیح سے ثابت ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 509)

امام حسین کے نام پہ فقیر بنانا

امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پہ بچوں کو فقیر بنانا اور منت ماننا کہ اگر ہمارا بچہ زندہ رہا تو اس کو امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پہ فقیر بنائیں گے، یہ ممنوع ہے۔

حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: فقیر بنا کر بلا ضرورت و مجبوری بھیک مانگنا حرام اور ایسوں کو دینا بھی حرام، اس لیے کہ یہ گناہ کے کام پر دوسرے کی امداد کرنا ہے اور وہ منت ماننی کی دس برس تک ایسا کریں گے، سب مہمل و ممنوع ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 24، ص: 495)

محرم میں شادی بیاہ نہ کرنا

بعض لوگ ماہ محرم الحرام میں شادی بیاہ کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اس مہینے میں شادی کرنے سے پریشانی آتی ہے، یہ محض باطل نظریہ ہے، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ بلا شبہہ اس مہینے میں نکاح کرنا جائز ہے۔ حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ماہ محرم الحرام وصفرالمظفر میں نکاح کرنا منع ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: نکاح کسی مہینے میں منع نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: 11، صفحہ: 266)

ایک اور مقام پہ سوال ہوا کہ ماہ محرم اور خصوصاً ۹ تاریخ ماہ مذکورہ کی شب میں نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: جائز ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: 23، صفحہ: 194)

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں