عنوان: | بگڑتا بچپن، روتا ہوا کل (نور نسل قسط:3) |
---|---|
تحریر: | سلمی شاھین امجدی کردار فاطمی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
ایک تین سالہ بچہ توتلی زبان میں دادی کو گالی دیتا ہے، اور دادی ہنس کر پوتے کے صدقے واری جاتی ہے۔ ماں بھی لطف لیتی ہے، باپ فخر سے کہتا ہے: ہمارا بچہ بولنے لگا ہے! پانچ سال کا بچہ ماں پر ہاتھ اٹھاتا ہے، اور ماں خوش ہو کر اسے گلے لگا لیتی ہے: کتنا غصے والا ہے! ماشاء اللہ!
جب وہی بچہ بہن کے بال کھینچتا ہے، یا اس سے زبردستی کھلونا چھین لیتا ہے، تو ہم بہن کو تھپکی دے کر بہلا دیتے ہیں، اور کہتے ہیں: بھائی ہے، بھائیوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ یہ سب ہمیں معمولی شرارتیں لگتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اُس وقت ایک مجرم کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم ایک ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہوتے ہیں جسے نہ حد کا پتا ہوتا ہے، نہ ادب کا۔ ہماری ہنسی، ہماری نظر اندازیاں، ہماری چھوٹی چھوٹی چلنے دو کی پالیسی کل کو ہمیں رُلا دیتی ہیں، جب یہی بچہ ماں سے بدتمیزی کرتا ہے، باپ کو نظرانداز کرتا ہے، بہن کی جائیداد ہڑپ کر جاتا ہے، اور معاشرے میں زبان، ہاتھ، اور کردار سے بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ تب ہم چیختے ہیں: یہ کیسا بچہ نکلا؟ ہم نے تو بہت پیار دیا تھا! جی ہاں، پیار دیا تھا لیکن بے شعور پیار، بے لگام پیار، جس میں تربیت کا وزن نہیں تھا، صرف جذبات کی نرمی تھی۔
ہم نے بچے کی زبان پر کبھی ادب نہیں رکھا، ہاتھ پر کبھی روک نہیں رکھی، اور دل میں کبھی ذمہ داری نہیں ڈالی۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
مُرُوا أولادَكُم بِالصَّلاةِ وهُم أبناءُ سَبعِ سنين، واضرِبوهم عليها وهم أبناءُ عشرٍ، وفَرِّقوا بينَهم في المضاجِعِ (ابو داود: 495)
ترجمہ: اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو، دس سال کی عمر میں سختی کرو، اور ان کے بستر الگ کر دو۔
یہ حدیث صرف نماز کے لیے نہیں، بلکہ بچوں میں نظم، حدود، اور شعور پیدا کرنے کا مکمل دستور ہے۔ لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم نے بچپن ہے، سمجھ دار ہو جائے گا کہہ کر سمجھ کی بنیاد ہی نہیں رکھی۔ ہم نے بچے کی ہر زیادتی کو ہنسی میں اڑا دیا، اور یوں اس نے سیکھا کہ اس کی ہر بات جائز ہے، چاہے وہ کسی کے جذبات، عزت یا حق پر حملہ ہی کیوں نہ ہو۔
بچے بگڑتے نہیں، انہیں بگاڑا جاتا ہے۔ ہماری نرمی سے، ہماری لاپرواہی سے، اور ہماری وقتی آسانی سے۔ یاد رکھیے، بچپن میں جو بات سکھائی نہ جائے، وہ جوانی میں قیمت بن کر وصول ہوتی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ادب، عدل، احساس، اور کردار کے پیکر بنیں، تو ہمیں ان کی ہر پہلی غلطی پر بولنا ہوگا، ہنسی کو روکنا ہوگا، اور اصلاح کو محبت کے ساتھ دینا ہوگا۔
ورنہ کل ہم کہیں گے: "ہم نے تو کچھ نہ کہا، پتا نہیں یہ ایسا کیوں ہو گیا۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ ہم نے کہا ہی کچھ نہیں تھا، اسی لیے وہ ایسا ہو گیا۔