عنوان: | حسینی اور زبان کا کردار (میں حسینی ہوں: قسط دوم) |
---|---|
تحریر: | المیرا قادریہ رضویہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
پچھلی قسط میں ہم نے حسینی حیا اور پردے کی عظمت کو جانا۔ اب ہم زبان کے باب میں قدم رکھتے ہیں، کیوں کہ زبان انسان کا آئینہ بھی ہے اور اس کے ایمان کا مظہر بھی۔ یہ وہ عضو ہے جو بظاہر چھوٹا مگر اثر میں سب سے بڑا ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے :
کبھی انسان کوئی بات زبان سے کہہ دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آتی ہے کہ اس کے لیے جنت لکھ دی جاتی ہے، اور کبھی ایسا جملہ اس کی زبان سے نکلتا ہے جو اللہ کو ناراض کر دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ جہنم کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ زبان تنہا ایک ایسا عضو ہے جو بندے کے لیے جنت و جہنم کا فیصلہ کروا دیتا ہے۔
ایک حسینی کے لیے زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ ایک امانت ہے۔ وہ زبان جس سے وہ یا حسین کہتا ہے، لبیک یا رسول اللہ پکارتا ہے، وہ زبان اس لائق کیسے ہو سکتی ہے کہ اس سے جھوٹ، غیبت، چغلی، طعنہ زنی، تہمت یا گالی نکلے؟ یہ بات ایک وفادارِ حسین کے شایانِ شان نہیں۔
اگر تاریخِ کربلا کے اوراق پلٹے جائیں، تو وہ گواہی دیتے ہیں کہ شہیدِ اعظم، امامِ مظلوم، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب آپ کا سرِ انور نیزے کی نوک پر بلند کیا گیا، تو یہ آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ایک کرامت تھی کہ آپ کی زبانِ اقدس سے تلاوتِ قرآن کی صدائیں آ رہی تھیں۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ حسینی زبان ہمیشہ ذکرِ الٰہی سے معمور رہتی ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر جب آپ نے کوفہ و شام کے ناپاک درباروں میں ظالموں کا سامنا کیا، تو نہ آپ نے طعن و ملامت کی، نہ سخت کلامی کا سہارا لیا، بلکہ گالی کا جواب بھی دعا سے دیا، اور بے حرمتی کا جواب بھی وقار اور خاموشی سے دیا۔
تو کیا ہم، جو حسینی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اپنی زبانوں کو ویسا پاک رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے امام کی زبان تھی؟ اگر ہماری زبانوں سے جھوٹ، غیبت، الزام، فحش گوئی اور دنیا پرستی کے نغمے نکلیں تو کیا ہم سچے حسینی کہلا سکتے ہیں؟
امام حسین رضی اللہ عنہ کی تربیت کا فیض یہ ہے کہ جو بھی سچا حسینی ہوتا ہے، اس کے لہجے میں قرآن بولتا ہے، اس کی گفتگو میں سنت مہکتی ہے، اس کے الفاظ میں درود و سلام کی خوشبو ہوتی ہے، اور اس کا اندازِ تخاطب ادب و رحم سے بھرا ہوتا ہے۔
حسینی غیرت کبھی یہ اجازت نہیں دیتی کہ جس زبان سے وہ عزت والے مولیٰ حسین کا نام لیتا ہے، اسی زبان سے ایسی بات نکالے جو کسی کی عزت پامال کرے، کسی کا دل توڑے، یا کسی کے ایمان کو متزلزل کرے۔
اسی لیے حسینی ہمیشہ: سختی کا جواب نرمی سے باطل کا جواب حق سے گالی کا جواب دعا سے بے ادبی کا جواب ادب سے نفرت کا جواب محبت سے دیتا ہے۔
ہم میں سے اکثر چاہتے ہیں کہ ہماری نصیحت کو لوگ قبول کریں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ نصیحت کا اثر الفاظ سے نہیں، لہجے سے ہوتا ہے۔ میرا رب قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے:
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى (الطٰهٰ: ۴۴)
ترجمہ کنز الایمان: تو اس سے نرم بات کہنا، اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے۔
تفسیر صراط الجنان: اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کی تبلیغ اور نصیحت نرمی کے ساتھ کرنی چاہیے۔ نصیحت وہی مؤثر ہوتی ہے جو پیار اور ادب سے کی جائے، تاکہ سننے والا قبول کرے یا کم از کم اللہ کے عذاب سے خوف زدہ ہو۔
لہٰذا ایک سچے حسینی کا اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے الفاظ سے رحمت برسے، نہ کہ فتنہ اٹھے۔ اس کے لہجے سے محبت جھلکے، نہ کہ نفرت پھیلے۔
آج میں اُن تمام نوجوانوں، مردوں، عورتوں، بزرگوں اور بچوں کو، جو حسینی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، دعوتِ فکر دیتی ہوں کہ کیا تمہاری زبان قرآن و سنت کے گیت گاتی ہے یا دنیا و نفس کی باتیں؟ کیا تمہاری گفتگو امامِ عالی مقام کی وفاداری کا ثبوت دیتی ہے یا صرف دعویٰ ہے؟
آج، ابھی، اسی لمحے یہ عہد کریں: میں بھی، تم بھی، ہم سب اپنی زبان کو سچ، نرمی، حق، دعا، عدل اور وقار کا عادی بنائیں گے۔ ہم صرف نام کے حسینی نہیں بنیں گے، ہم تعلیماتِ حسین پر عمل کر کے دکھائیں گے۔ کیونکہ یہی اصل معنی ہے میں حسینی ہوں کا۔