✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

کربلا کا چمکتا چاند

عنوان: کربلا کا چمکتا چاند
تحریر: سفینہ الحفیظ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

سانحۂ کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نورِ نظر، جگر گوشہ، شبیہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کردار عظمت اور قربانی کی روشن مثال ہے۔ آپ کی عمر صرف اٹھارہ برس تھی، مگر ایمان اور شجاعت ایسی کہ دنیا کی کسی نعمت اور آرام کو خاطر میں نہ لائے۔

جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کربلا کے میدان میں سب اہلِ بیت کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا تو حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت چاہی کہ اب انہیں میدانِ جنگ میں جانے دیا جائے۔ کیسا دردناک وقت تھا کہ باپ کی آنکھوں کے سامنے نوجوان بیٹا دشمنوں کی تلواروں اور نیزوں کا سامنا کرنے جا رہا تھا۔ امام پاک نے محبت سے دیکھا اور فرمایا: بیٹا! تمہیں خاک و خون میں تڑپنے کی اجازت کس دل سے دوں؟

لیکن آپ کا جذبۂ شہادت اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اگر روکا جاتا تو شدتِ غم سے دل ٹکڑے ہو جاتا۔ امام پاک نے اشک بار آنکھوں سے اجازت عطا فرمائی۔ آپ کو نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ پہنائی گئی، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار باندھی گئی اور دعا دی: بیٹا! اللہ تمہارا مددگار ہو۔

حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے والدِ محترم کو آخری سلام کیا اور پورے عزم سے گھوڑے پر سوار ہو کر یزیدی فوج کی طرف بڑھے۔ میدان میں پہنچ کر پرجوش آواز میں اپنی پہچان بتائی جان لو! میں علی اکبر ہوں۔ میرے والد حسین ہیں جو علی شیرِ خدا کے فرزند ہیں۔ ہم اہلِ بیت ہیں۔ زمین و آسمان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سے زیادہ قریبی کوئی نہیں۔

آپ کے یہ الفاظ سن کر یزیدیوں کے دل کانپ اٹھے، مگر ان کے دلوں پر قفل پڑ چکے تھے۔ آپ نے للکار کر کہا: اے اولادِ رسول کے خون کے پیاسو! آؤ میدان میں، میں شیرِ خدا کی اولاد ہوں! پہلے کسی کو سامنے آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ پھر ابن سعد نے اپنے لشکر کے ایک طاقت ور پہلوان کو بھیجا جسے حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ہی وار میں جہنم رسید کر دیا۔ اس کے بعد ایک اور بہادر مقابلے میں آیا، اس کا انجام بھی اسی تلوار سے ہوا۔

لڑتے لڑتے شدتِ پیاس نے بے حال کر دیا۔ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیمے کی طرف واپس آئے اور عرض کی: ابا جان! پیاس سے جان نکل رہی ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شفقت سے چہرے کا غبار صاف کیا اور فرمایا: بیٹا! اب تھوڑی دیر میں میرے نانا جان تمہیں حوضِ کوثر سے پانی پلائیں گے، پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ جب میں پیاسا ہوتا تو میرے نانا جان اپنی زبان مبارک میرے منہ میں دے دیتے تھے۔ آج تم میری زبان کو اپنے منہ میں لے لو۔

حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے والد کی زبانِ مبارک سے کچھ تسکین پائی اور دوبارہ میدان کی طرف بڑھ گئے۔ اس بار ابن سعد نے ہزاروں سپاہیوں کو حکم دیا کہ ہر طرف سے حملہ کیا جائے۔ نیزوں اور تلواروں کی بارش میں آپ کا جسم مبارک زخموں سے چور ہو گیا۔ آپ گھوڑے سے زمین پر آ گرے اور درد بھری آواز میں پکارا: یا ابا جان! میری خبر لیجیے!

امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑ کر پہنچے، بیٹے کا سر گود میں رکھا اور چہرے سے خون صاف کرنے لگے۔ حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آخری بار والد محترم کو دیکھا اور ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیے۔

آپ کی یہ شہادت رہتی دنیا تک اہلِ بیت کی عظمت اور دین کی سربلندی کی دلیل رہے گی۔ یہ کربلا کی داستان آج بھی ہمیں پکارتی ہے کہ اگر دل میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین کی سچی لگن ہو تو دنیا کی کوئی طاقت باطل کو حق پر غالب نہیں کر سکتی۔ حضرت علی اکبر کی قربانی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ایمان کی روشنی انسان کو عزت اور وقار عطا کرتی ہے، جب کہ باطل پر چلنے والے چاہے جتنے بڑے لشکر کیوں نہ ہوں، ان کے نام و نشان مٹ جاتے ہیں۔

آئیے ہم بھی اپنے دل میں ان عظیم ہستیوں کی محبت اور ان کے راستے پر چلنے کی تمنا کو زندہ کریں، تاکہ ہماری زندگی میں بھی دین کی خدمت اور سچائی کی سربلندی کا جذبہ جاگتا رہے۔ اللہ پاک ہمیں اس مقصد میں کامیاب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں