عنوان: | کیا ہے ہمارے پاس جو اللہ کے لیے خرچ ہوسکے |
---|---|
تحریر: | سفینہ الحفیظ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کبھی ہم نے ٹھہر کر سوچا ہے؟ جو کچھ ہمارے پاس ہے وقت، صحت، مال، ذہن، زبان، علم، ہنر یہ سب کہاں سے آیا؟ ہم نے کیا کمایا؟ کیا گڑھا کھودا؟ کیا بویا؟ یہ سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہے اور ہم اس کے خلیفہ ہیں، مالک نہیں۔
جب مالک وہ ہے، تو کیا ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اس کے دیے میں سے، اس کے لیے کیا لوٹا سکتے ہیں؟ کیا ہے ہمارے پاس جو اللہ کے لیے خرچ ہو سکے؟
آیئے، تلاش کرتے ہیں اللہ کی کتاب قرآن میں بھی، اور اپنے دل کے اندر بھی کہ رب ہم سے کیا چاہتا ہے، اور ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ جو کچھ بھی ہے تھوڑا ہو یا زیادہ جب وہ اخلاص سے ہو، اللہ کے لیے ہو، تو وہی سب سے قیمتی بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْهِؕ-فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ (الحدید: ۷)
ترجمہ کنزالایمان: اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا اُن کے لیے بڑا ثواب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان کے بعد (خرچ کرنے) کی ترغیب دی ہے۔ یعنی صرف ایمان کافی نہیں، بلکہ ایمان کے بعد ایک اہم تقاضا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔
کہاں خرچ کریں؟ کیا خرچ کریں؟
اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے، اس کے بندوں کی خدمت کے لیے، دین کی دعوت، تعلیم، اور اصلاح کے لیے۔ یہ خرچ صرف مال کا نہیں، بلکہ: اپنا نفس خواہشات اور آرام کو قربان کر کے اپنا وقت عبادت، سیکھنے اور سکھانے میں اپنی زبان تسلی، دعا، مسکراہٹ اپنا مال ضرورت مندوں، دینی اداروں، فلاحی کاموں میں اپنا علم جو جانتے ہیں، وہ دوسروں کو سکھائیں اپنی صلاحیت کسی کے کام آنا اپنی نیت ہر نیکی صرف اللہ کے لیے اسی حقیقت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
اب ذرا اس آیت پر مزید غور کرتے ہیں۔ اس آیت میں مستخلفین کا لفظ آیا ہے جو خلف سے نکلا ہے یعنی جانشین، نائب۔ اس میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ ہم ان چیزوں کے اصل مالک نہیں، بلکہ اللہ کے دیے ہوئے امانت دار ہیں۔
ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے مال ہو یا وقت، علم ہو یا طاقت وہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے، اور ہمیں اس میں صرف نائب اور مختار بنایا گیا ہے، مالک نہیں۔ جیسے کوئی کرایے دار مکان استعمال کرتا ہے مگر مالک نہیں ہوتا۔
ویسے ہی انسان کو دنیا کی نعمتیں آزمائش کے طور پر دی گئی ہیں، نہ کہ ملکیت کے دعوے کے لیے۔ کتنا خرچ کریں؟ اتنا جتنا ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد بچ جائے اور اتنا جتنا اخلاص کے ساتھ دیا جائے۔ یاد رکھیے، خرچ صرف مال نہیں، نیت اور جذبہ بھی خرچ ہوتا ہے۔
وہ نیکیاں جو سب کر سکتے ہیں: کسی کے چہرے پہ مسکراہٹ لانا کسی کو تسلی دینا کسی کے ساتھ صفائی یا کھانے میں مدد کسی کو پانی دینا نیکی کی بات آگے بڑھانا نیکی کرنے والوں کے لیے دل سے دعا کرنا۔ یہ سب عمل بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہی ہیں اور یہ سب ہم کر سکتے ہیں۔
دین کے لیے خود کو وقف کریں اور آپ لکھیں اور دین کی باتیں لکھ کر دوسروں تک پہنچائیں، اور اگر لکھنا نہ آتا ہو، تو نیک باتیں پڑھ کر اُن لوگوں کو سنا دیں جو خود نہیں پڑھ سکتے۔
قرآن کا پیغام، اللہ کی ہدایت، اور نبی ﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا بھی دین کی خدمت ہے۔ کبھی آپ کے چند سادہ سے الفاظ کسی کے دل میں اللہ کی محبت جگا سکتے ہیں، ہدایت کا چراغ روشن کر سکتے ہیں۔ اسی خوب صورت انداز میں بھی ہم دین کے لیے خود کو وقف کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: «لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ» ان کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا: «أَجْرٌ كَرِيمٌ» باوقار اور عزت والا اجر۔
یہ دنیا کا وقتی پروٹوکول نہیں، بلکہ وہ ہمیشہ کی جنت ہے، جس کی نعمتیں الفاظ سے بلند، تصور سے باہر اور انسانی سوچ سے ماورا ہیں۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل نے فرمایا: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا۔ (البخاری: 3244)
تو آئیے سوچیں، دیکھیں، پہچانیں کہ ہمارے پاس کیا ہے جو ہم اللہ کے لیے خرچ کر سکتے ہیں؟ جتنا بھی ہے تھوڑا ہو یا زیادہ اگر وہ اللہ کے لیے دیا گیا، تو وہی سب سے قیمتی ہے۔ کیونکہ جو اللہ کے لیے خرچ کیا جاتا ہے وہی قیامت کے دن بچا ہوا ہوتا ہے۔
ہم سب کے پاس کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو اللہ کے لیے خرچ کیا جا سکتا ہے وقت، علم، مال، صلاحیت یا نیکی کی نیت۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم ان سب کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کریں۔ کیونکہ جو اللہ کے لیے دیا جاتا ہے، وہ قیامت کے دن باقی رہتا ہے، اور جنت میں عظیم اجر بن کر لوٹتا ہے۔
یا اللہ! ہمیں اپنے دیے ہوئے ہر نعمت کو تو اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرما، اور قیامت کے دن انہی عطاؤں کو ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بنا دے۔ آمین یا رب العالمین