عنوان: | محرم الحرام میں ہونے والے فتنے |
---|---|
تحریر: | غلمہ فاطمہ بصری |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
آج کل جو تعزیے بنائے جاتے ہیں، اولاً تو یہ حضرت امامِ عالی مقام کے روضۂ اقدس کا صحیح نقشہ نہیں۔ عجیب عجیب طرح کے تعزیے بنائے جاتے ہیں، پھر انہیں گھمایا اور گشت کرایا جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس مقابلے میں کبھی کبھی لڑائی، جھگڑے، اور لاٹھی، ڈنڈے، چاقو، اور چھری چلانے تک کی نوبت آجاتی ہے۔
اور یہ سب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کے نام پر کیا جاتا ہے۔ افسوس ایسے مسلمانوں پر، کہ کیا ہو گیا ہے۔ یہ کہاں سے چلا تھا اور کہاں پہنچ گیا، کوئی سمجھائے تو ماننے کو تیار نہیں، بلکہ الٹا سمجھانے والے کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ آج کی تعزیے داری اور اس کے ساتھ ہونے والی تمام بدعات، خرافات، اور واہیات، سب ناجائز اور گناہ ہیں۔ مثلاً: ماتم کرنا، تعزیوں کو چڑھاوے چڑھانا، ان کے سامنے کھانا رکھ کر وہاں فاتحہ پڑھنا۔ ان سے منتیں مانگنا، ان کے نیچے سے برکت حاصل کرنے کے لیے بچوں کو گزارنا۔ تعزیہ دیکھنے جانا، انہیں جھک کر سلام کرنا، سواریاں نکالنا۔ یہ سب جاہلانہ باتیں اور ناجائز حرکتیں ہیں۔ ان کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔
اور جو اسلام کو جانتا ہے، اس کا دل خود کہے گا کہ اسلام جیسا سیدھا، شرافت اور سنجیدگی والا دین ان تماشوں اور وہم پرستی کی باتوں کو کیسے گوارا کر سکتا ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تعزیے داری اور اس کے ساتھ ڈھول، باجے، اور ماتم کرتے ہوئے گھومنے سے اسلام اور مسلمان کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ایک فضول بات ہے۔
پانچوں وقت کی اذان، محلے، بستی اور شہر کے سب مسلمانوں کا مسجدوں اور عیدگاہوں میں جمعہ و عید کی نماز باجماعت ادا کرنا۔ اسلام اور مسلمانوں کی شان ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ تعزیے داری اور اس کے ساتھ تماشے، ڈھول، باجے، کودنا، پھاندنا، ماتم کرنا سب لغو اور فضول کام ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا (الأنعام 70)
ترجمہ کنزالایمان: چھوڑ دے ان کو جنہوں نے اپنا دین ہنسی کھیل بنا لیا، اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا۔
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۚ-فَالْیَوْمَ نَنْسٰىهُمْ كَمَا نَسُوْا لِقَآءَ یَوْمِهِمْ هٰذَاۙ-وَ مَا كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ (الأعراف 51)
ترجمہ کنزالایمان: جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا لیا اور دنیا کی زیست نے انہیں فریب دیا۔ تو آج ہم انہیں چھوڑ دیں گے جیسا انہوں نے اس دن کے ملنے کا خیال چھوڑا تھا۔ اور جیسے وہ ہماری آیتوں سے انکار کرتے تھے۔
ان آیات کو اگر آپ دھیان سے پڑھیں، تو آج کی تعزیے داری اور عرسوں کے نام پر جو میلے، تھیلے، ناچ، تماشے، قوالیاں ہو رہی ہیں۔ وہ سب چیزیں یاد آجائیں گی۔ اور نظرِ انصاف کرے گی کہ واقعی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو تماشا بنا دیا۔ اور دینِ متین کو ہنسی کا نشانہ بنا دیا۔ خدائے تعالیٰ توفیق دے!
انسان کو چاہیے کہ مرنے سے پہلے آنکھیں کھول لے اور ہوش میں آجائے۔ کیونکہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے درد، مصیبت، حادثات وغیرہ پر صبر کا حکم دیا ہے۔ نہ کہ رونے پیٹنے، چیخنے چلّانے، سینہ کوبی اور ماتم کرنے کا۔
اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی ارشاد فرماتے ہیں:
اب کی تعزیے داری، اس طریقۂ نامرضیہ نام ہے، قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد 24، صفحہ 513)
مسلمانوں کے لیے بہترین تعزیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین کی حمد و ثنا کریں۔ < قیامت کے دن حق کی شہادت دینے والے سردار امام حسین پر بہترین صلوٰۃ و کامل ترین سلام بھیجیں۔ اور ان کے آل و اصحاب پر درود شریف پڑھیں۔ محرم الحرام جھوٹے رواجوں کا مہینہ نہیں بلکہ تقویٰ، صبر، قربانی، عبادت کا مہینہ ہے۔ ہمیں امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پر چلنا ہے، نہ کہ رواجوں پر۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر و استقامت اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔