✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

حیاء و حجاب (میں حسینی ہوں: قسط:1)

عنوان: (میں حسینی ہوں پہلی قسط) حیاء و حجاب
تحریر: المیرا قادریہ رضویہ
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

کربلا صرف تاریخ کا ایک واقعہ نہیں، یہ ایک ایسی روحانی درسگاہ ہے جہاں ہر عاشقِ اہلِ بیت اپنی زندگی کا نیا باب تلاش کرتا ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی صرف تلوار سے لڑی جانے والی جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ ہر اس چیز کو قربان کرنے کا نام تھا جو دین کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اسی قربانی کی بازگشت ہر دور میں، ہر مومن کے قلب میں گونجتی ہے۔ ایک حسینی کا مطلب صرف غم منانا نہیں، بلکہ ان اقدار کو اپنانا ہے جن کے تحفظ کے لیے امام نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔

حسینی ہونا صرف محبت کا دعویٰ نہیں، یہ عہدِ وفا ہے، یہ سچائی پر ڈٹے رہنے کا وعدہ ہے، یہ اپنے نفس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اور اس جنگ کا پہلا محاذ ہے: نگاہ کی حفاظت اور لباس کی حیاء۔

جس دن کربلا میں آلِ رسول پر پانی بند کیا گیا، جس دن بیبیوں کے خیمے جلائے گئے، جس دن درباروں میں چادریں چھینی گئیں—وہ دن صرف تاریخ کا سیاہ باب نہیں بلکہ ہر غیرت مند مسلمان کے لیے ایک مستقل پکار ہے کہ: اے امتِ محمد، کیا تم نے اُن قربانیوں کی لاج رکھی؟

ایک حسینی کا کردار آنکھ سے شروع ہوتا ہے۔ مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ آنکھیں شیطان کا جال ہیں۔ انسان کا پہلا گناہ نگاہ سے جنم لیتا ہے۔ اسی لیے ایک سچا حسینی اپنی آنکھوں کو کبھی آلودہ نہیں کرتا۔ وہ فلموں، فیشن، غیر اخلاقی مناظر یا غیر محرموں کی طرف نظر اٹھانا اپنے لیے شرم کا مقام سمجھتا ہے۔

کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ ان آنکھوں سے ایک دن سرورِ کائنات ﷺ اور نواسۂ رسول ﷺ کا دیدار مطلوب ہے۔ اور جو آنکھیں دنیا کی گندگی سے بھر جائیں، وہ اس پاک دیدار کی حق دار کیسے بن سکتی ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ حسینی نگاہ صرف حیاء کی حفاظت ہی نہیں کرتی، بلکہ وہ محبت کا اظہار بھی ہے، وہ انتظار کا ادب بھی ہے، وہ وفاداری کا عہد بھی ہے۔

اور جہاں نگاہ کا ذکر ہو، وہاں لباس اور پردہ کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟ ایک سچا حسینی مرد یا عورت، اپنی ظاہری حالت کو کبھی دنیا کے رواجوں کے تابع نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ میرے آقا ﷺ نے لباس کو عظمت عطا کی، اور میرے امام حسین رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی بیبیوں نے کربلا کے میدان میں بھی پردے کو ترک نہیں کیا۔

باپردہ نکلیں، باپردہ خیموں میں رہیں، باپردہ قید ہوئیں، باپردہ درباروں میں پیش ہوئیں۔یہ پیغام ہے ہر حسینی عورت کے لیے۔ اگر زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہا جیسی بیبی بے پردگی کو پسند نہ فرمائیں، تو ہم کس طرح اپنی بے حجابی کو فیشن، آزادی یا مجبوری کا نام دے سکتے ہیں؟

حسینی عورت کے لیے پردہ صرف فرض نہیں، وہ عشق کا تاج ہے۔ وہ اطاعت کی سند ہے۔ وہ عقیدت کی چادر ہے۔ اور وہ چادر ایسی ہے جس کے دامن تک سورج اور چاند بھی نہ پہنچ سکے۔ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے نقوشِ حیات میں قدم رکھنے والی ہر خاتون کو جان لینا چاہیے کہ اگر امام حسین کی رضا چاہیے تو ان کی ماں سیدہ فاطمہ کی رضا حاصل کرنا پڑے گی۔ اور اگر سیدہ فاطمہ ناراض ہو گئیں تو خود رسول اللہ ﷺ ناراض ہوں گے، اور رسول اللہ کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی ہے۔

اس لیے، اے دعویٰ کرنے والے حسینیو! آؤ اپنے گریبان میں جھانکو۔ تمھاری نگاہیں کہاں بھٹکتی ہیں؟ تمھارا لباس کتنا دین دار ہے؟ کیا تم حسینی بننے کے لائق ہو؟ کیا اگر کل میدانِ محشر میں امام تم سے پوچھیں: کیا میرے دین کے لیے تم نے کچھ کیا؟ تو تمھارے پاس کوئی جواب ہو گا؟

آج عہد کرو۔ میں، تم، ہم سب۔کہ: ہم اپنی آنکھوں کو پاک رکھیں گے۔ ہم اپنے لباس میں حیاء کا رنگ بھر دیں گے۔ ہم اپنی ماں فاطمہ زہرا کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اور ہم صرف محبت کا نعرہ نہیں، عمل کا چراغ جلائیں گے۔ یہی پہلا قدم ہے میں حسینی ہوں کے سفر کا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں