عنوان: | سلام کا فلسفہ ایک نظر میں |
---|---|
تحریر: | آفرین لاکھانی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
جب ہم کسی کو سلام کہتے ہیں تو کہتے ہیں: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
لیکن جب ہم سرورِ کائنات، رحمتِ عالم، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں سلام پیش کرتے ہیں تو الفاظ یہ ہوتے ہیں: السلام علیک یا نبی اس میں ایک خاص ادب، مقام اور نرمی کا اظہار ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں کے لیے السلام علیکم اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے السلام علیک کیوں کہا جاتا ہے؟
یہ فرق زبان کے قاعدے اور محبت کی اس اعلیٰ ترین سطح کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے۔ جب ہم "السلام علیک یا نبی" کہتے ہیں تو لفظ کاف ضمیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف براہِ راست خطاب کا ذریعہ بنتا ہے۔ یا نبی اس ضمیر کا بدل ہے، اور یہ ادب و تعظیم کا ایک عظیم نمونہ ہے۔
یہ طریقہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا۔ معراج کی مقدس شب میں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﺍَﻟﺘَﺤِﻴَّﺎﺕ ُﻟِﻠَّﻪِ ﻭَﺍﻟﺼَّﻠَﻮَﺍﺕُ ﻭَﺍﻟﻄَّﻴِّﺒَﺎﺕُ۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا: ﺍﻟﺴَّﻠَﺎﻡُ ﻋَﻠَﻴْﻚَ ﺃَﻳُّﻬَﺎ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲُّ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛَﺎﺗُﻪُ۔
یوں السلام علیک کہنا اللہ تعالیٰ کی سنت بن گئی، اور جب بندے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں تو وہ اسی سنتِ الٰہیہ پر عمل کرتے ہیں۔
جہاں تک عام انسانوں کے لیے السلام علیکم کہنے کا تعلق ہے تو یہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، چاہے مخاطب ایک ہی شخص ہو۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو وہ صرف اس شخص کو ہی نہیں بلکہ اس کی جان، عزت، اور اس کے ساتھ موجود فرشتوں تک پہنچتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی یہی صیغہ استعمال ہوا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امت کو یہی طریقہ سکھایا۔ اس لیے ہم السلام علیکم کہتے ہیں، تاکہ اس میں جامعیت اور وسیع رحمت کا اظہار ہو۔
سلام، چاہے کسی انسان کو پیش کیا جائے یا بارگاہِ رسالت میں، درحقیقت اسلام کی تعلیمات اور محبت کے فلسفے کا عکاس ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں ادب، محبت اور قربت کی اعلیٰ ترین جھلک ہے، اور عام لوگوں کے لیے جو الفاظ چُنے جاتے ہیں، وہ باہمی اخوت، دعائے خیر اور معاشرتی ہمدردی کا آئینہ دار ہیں۔ یوں سلام کے مختلف صیغے اپنے اپنے مقام اور معنی کے اعتبار سے ایک منفرد حسن رکھتے ہیں۔