عنوان: | کربلا کا پیغام اور نوجوان نسل |
---|---|
تحریر: | مفتیہ نازیہ فاطمہ |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم باب ہے جس میں حق و باطل کی معرکہ آرائی نے ہمیشہ کے لیے انسانیت کو ایک اصولی اور عملی راستہ دکھا دیا۔ امام حسین کے جانثاروں نے نہ صرف دین کی حفاظت کی بلکہ آنے والی نسلوں کو حق پر قائم رہنے، قربانی دینے، صبر کرنے اور استقامت کا درس بھی دیا۔
آج کے نوجوانوں کو جتنی رہنمائی کی ضرورت ہے، شاید کسی اور دور میں نہ رہی ہو۔ کربلا محض ایک تاریخی واقعہ یا جنگ نہیں، بلکہ ایک زندہ اور بیدار پیغام ہے جو آج بھی نوجوان دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔
امام حسین نے فرمایا: میں ظلم و فساد کے خلاف نکلا ہوں تاکہ امتِ محمدی ﷺ کی اصلاح کروں۔
یہ اعلان نوجوانوں کو یاد دلاتا ہے کہ زندگی صرف کامیابی یا شہرت کا نام نہیں، بلکہ حق کے لیے ڈٹ جانے کا نام ہے۔ امام حسین نے دنیاوی فائدوں کو ٹھکرا کر اصولوں کو ترجیح دی۔ یہی کربلا کا اصل پیغام ہے: ظلم کے خلاف کلمۂ حق کہنا، چاہے اس کی قیمت جان دے کر ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
آج کے نوجوان مختلف معاشرتی، تعلیمی، سیاسی اور سماجی ظلم کا مشاہدہ کرتے ہیں، لیکن اکثر خاموش رہتے ہیں۔ امام حسین کا پیغام ہے کہ ظلم پر خاموشی اختیار کرنا ظالم کی تائید ہے، اور بولنا حسینیت ہے۔
کربلا میں صرف مرد ہی نہیں، بلکہ نوجوان، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ حضرت علی اکبر، حضرت علی اصغر، حضرت قاسم، حضرت زینب، حضرت شہر بانو اور حضرت سکینہ کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ قیادت کا حق وہی ادا کرتا ہے جو عملی میدان میں اترتا ہے۔ صرف تقریر، خطاب یا بیان کافی نہیں۔
امام حسین کے ساتھ جو نوجوان تھے، انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جوانی کی اصل طاقت یہ ہے کہ انسان حق کے لیے ڈٹ جائے۔
حضرت علی اکبر نے جنگ سے پہلے پوچھا: «أَوَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ؟» امام حسین نے فرمایا: «بَلَى إِذًا لَا نُبَالِي بِالْمَوْتِ۔» (الطبری:٢٣٩) کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام حسین نے فرمایا: یقیناً ہم حق پر ہیں۔ تو حضرت علی اکبر بولے: پھر مجھے موت کا کوئی خوف نہیں!
یہ الفاظ آج کے نوجوانوں کو ایمان، یقین اور عزیمت کا سبق دیتے ہیں۔ کربلا صرف غم کا واقعہ نہیں بلکہ فکر، بصیرت اور نظریاتی بیداری کا سرچشمہ ہے۔ نوجوان صرف آنسو بہانے کی بجائے یہ سوچیں کہ: امام حسین کس مقصد کے لیے آئے؟ امام حسین کس مقصد کے لیے لڑے؟ کیا ہم آج وہی مقصد اپنے معاشرے میں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟
ہمیں چاہیے کہ ہم حق کے لیے کھڑے ہوں، چاہے اکیلے ہی کیوں نہ ہوں۔ سچ بولیں، چاہے نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ باطل سے کبھی سمجھوتہ نہ کریں، اور اپنے کردار سے حسینیت کو زندہ رکھیں۔