عنوان: | نیوتا کی شرعی حیثیت |
---|---|
تحریر: | محمد سفیان حنفی مصباحی |
پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
شادی، ختنہ اور دیگر تقریبات کے موقع پر رشتہ دار اور دوست و احباب رقم یا کپڑے وغیرہ دیتے ہیں۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔
پہلی صورت: یہ ہے کہ جہاں برادری نظام ہے اور اس رقم اور کپڑے کو کاپی میں نام اور سکونت کے ساتھ درج کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے اتنی رقم دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی تقریب ہوتی ہے تو یہ بھی اس کے یہاں اتنی رقم دیتا ہے جتنی اُس نے دی تھی یا پھر کچھ زیادہ رقم دیتا ہے اور یہ بھی اس رقم کو نام اور سکونت کے ساتھ درج کرتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ رقم دوسرے شخص پر قرض ہوتی ہے، اس کا ادا کرنا لازم ہے، بغیر معاف کیے معاف نہ ہوگا۔
دوسری صورت: یہ ہے کہ جہاں برادری نظام نہیں یا پھر غیر برادری کے لوگ دوستی ،تعلقات اور عقیدت کی وجہ سے دیتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ رقم ہدیہ اور تحفہ ہوتی ہے۔
وقار الفتاوی میں ہے: جن لوگوں میں برادری نظام ہے، ان میں "نیوتا" قرض ہی شمار کیا جاتا ہے۔ وہ لکھ کر رکھتے ہیں، کس نے کتنا دیا تھا، اس کے یہاں شادی ہونے کی صورت میں اتنا ہی واپس کرتے ہیں، ان برادریوں میں "نیوتا" قرض ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا کم یا زیادہ نہیں کر سکتے اصل سے زیادہ دیں گے تو وہ زیادتی سود شمار ہوگی۔ اور جن برادریوں میں ایسا کوئی برادری کا قانون نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ دوستی، تعلقات اور عقیدت کی وجہ سے شادی میں کچھ دیتے ہیں وہ "ہدیہ" ہے۔ (وقار الفتاوی، ج: ۳، ص: ۱۱۷)
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَ مَاۤ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاۡ فِیْۤ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ. (الروم: ۳۹)
ترجمہ: تم جو چیز زیادہ لینے کو دو کہ دینے والے کے مال بڑھیں تو وہ الله کے یہاں نہ بڑھے گی۔
اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی نصیحت ہے جو شادی بیاہ وغیرہ پر اپنے عزیز رشتہ داروں یا دوست احباب کو نیوتا اور تحائف وغیرہ دیتے ہیں لیکن اس سے ان کا مقصد اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ یا تو اس لیے دیتے ہیں کہ لوگ زیادہ دینے پر ان کی خوب تعریف کریں یا اس لیے دیتے ہیں کہ خاندان میں ان کی ناک اونچی رہے، یا صرف اس لیے دیتے ہیں کہ انھیں پانچ کے دس ہزار ملیں، ایسے لوگ ثواب کے مستحق نہیں ہیں۔جیسا کہ مفسرین فرماتے ہیں کہ لوگوں کا دستور تھا کہ وہ دوست احباب اور شناسائی رکھنے والوں کو یا اور کسی شخص کو اس نیت سے ہدیہ دیتے تھے کہ وہ انھیں اس سے زیادہ دے گا یہ جائز تو ہے لیکن اس پر ثواب نہ ملے گا اور اس میں برکت نہ ہوگی کیوں کہ یہ عمل خالصتاً اللہ تعالی کے لیے نہیں ہوا۔ ( تفسیر صراط الجنان، الروم: ۳۹)
حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
نیوتا وصول کرنا شرعاً جائز ہے اور دینا ضروری ہے کہ وہ قرض ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۲۳، ص: ۲۶۹)
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں: اب جو نیوتا جاتا ہے وہ قرض ہے اس کا ادا کرنا لازم ہے اگر رہ گیا تو مطالبہ رہے گا اور بے اس کے معاف کیے معاف نہ ہوگا۔ والمسئلة فی الفتاوی الخيرية (اور یہ مسئلہ فتاوی خیریہ میں موجود ہے۔) چارہ کار یہ ہے کہ لانے والوں سے پہلے صاف کہہ دے کہ جو صاحب بطور امداد عنایت فرمائیں مضائقہ نہیں مجھ سے ممکن ہوا تو ان کی تقریب میں امداد کروں گا لیکن میں قرض لینا نہیں چاہتا، اس کے بعد جو شخص دے گا وہ اس کے ذمہ قرض نہ ہوگا، ہدیہ ہے جس کا بدلہ ہو گیا فبہا، نہ ہوا تو مطالبہ نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۲۳، ص: ۵۸۷)
حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
شادی وغیرہ تمام تقریبات میں طرح طرح کی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اس کے متعلق ہندوستان میں مختلف قسم کی رسمیں ہیں، ہر شہر میں ہر قوم میں جدا جدا رسوم ہیں ان کے متعلق ہدیہ اور ہبہ کا حکم ہے یا قرض کا، عموم رواج سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دینے والے یہ چیزیں بطور قرض دیتے ہیں، اسی وجہ سے شادیوں میں اور ہر تقریب میں جب روپے دیے جاتے ہیں تو ہر شخص کا نام اور رقم تحریر کر لیتے ہیں، جب اس دینے والے کے یہاں تقریب ہوتی ہے تو یہ شخص جس کے یہاں دیا جا چکا ہے فہرست نکالتا ہے اور اتنے روپے ضرور دیتا ہے جو اس نے دیے تھے اور اس کے خلاف کرنے میں سخت بدنامی ہوتی ہے اور موقع پا کر کہتے بھی ہیں کہ نیوتے کا روپیہ نہیں دیا، اگر یہ قرض نہ سمجھتے ہوتے تو ایسا عرف نہ ہوتا جو عموماً ہندوستان میں ہے۔ (بہار شریعت، ج: ۳، حصہ: ۱۴، ص: ۷۹/۸۰)