عنوان: | قرطاس کی گواہی |
---|---|
تحریر: | حبیب البشر مصباحی |
پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
جب کسی انسان کے اندر احساسات و جذبات اس قدر لبریز ہو جائیں کہ زبان ان کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو جائے، تو وہ خاموشی سے قلم تھام لیتا ہے۔ اور پھر ایک خالی قرطاس اُس کے سامنے ہوتا ہے — جیسے کوئی دوست، جو کچھ سنے بغیر سب کچھ جانتا ہو۔
کیا قرطاس صرف ایک سادہ صفحہ ہوتا ہے؟
نہیں! وہ ایک امین ہوتا ہے — چاہتوں کا، اذیتوں کا، ٹوٹے خوابوں، بچھڑ جانے والوں، چھپے رازوں، ان کہی باتوں، اور ان جذبات کا، جنہیں کوئی نہیں سمجھتا۔ جتنی فضیلت قلم کو حاصل ہے، اتنی ہی عظمت قرطاس کو بھی ملنی چاہیے۔ اگر قلم جذبات کا جسم ہے تو قرطاس ان کی روح ہے۔ قلم کے بغیر الفاظ کا وجود نہیں، اور قرطاس کے بغیر وہ الفاظ بے گھر ہوتے ہیں۔ یہ سادہ سا کاغذ، جو دنیا کو بے جان دکھائی دیتا ہے، دراصل وہ ظرف رکھتا ہے جو ہر انسان نہیں رکھتا۔ یہ آپ کی خاموشیوں کو زبان دیتا ہے، آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو سمیٹتا ہے اور ایسی باتوں کو بھی سن لیتا ہے جو کبھی کہی ہی نہیں گئیں۔
کبھی کبھی یہ کاغذ چیخ اٹھتا ہے، جب اس پر بچھڑنے کی صدائیں لکھی جاتی ہیں۔ اور کبھی یہ مسکرا دیتا ہے، جب کوئی خوشی یا کامیابی کی نوید اس پر درج ہوتی ہے۔ یہ وہ ساتھی ہے جو نہ شکایت کرتا ہے، نہ فاصلہ بڑھاتا ہے۔ نہ تھکتا ہے، نہ بدلتا ہے۔ پھر وقت گزر جاتا ہے… مہینے، سال، زندگیاں۔ لیکن ایک پرانی ڈائری، ایک پرانا خط، جب کسی پرانے کونے سے نکل کر سامنے آتا ہے، تو وہ قرطاس ہمیں واپس لے جاتا ہے — ان دنوں میں جب ہم کچھ اور تھے، جب ہماری دھڑکنیں تیز تھیں، اور ہمارے جذبات تازہ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی تحریر کسی کے لیے دوا بن جائے اور کسی کے لیے زہر۔ یہی قرطاس کا کمال ہے — وہ ہر دل کو اس کی کیفیت کے مطابق کچھ نہ کچھ عطا کرتا ہے۔ وہ قاری کے ساتھ ایک نیا رشتہ بناتا ہے۔ کوئی لفظوں میں اپنی محرومی دیکھتا ہے، کوئی اپنی امید۔
آخر میں یہ قرطاس بس اتنا کہتا ہے: ”میں نے تمہیں کبھی روکا نہیں، تمہارے ہر درد کو سہا، تمہارے لفظوں کو اپنی چھاتی پر سجایا، اور تمہارے دل کے بوجھ کو اپنا بوجھ بنایا۔ میں گواہ ہوں تمہارے جذبات کا، تمہارے سفر کا، تمہاری کہانی کا۔“