عنوان: | صرف مدرسہ ہی نشانے پر کیوں؟ |
---|---|
تحریر: | حرم نوری بریلوی |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
حال ہی میں ایک ہوٹل سے پکڑی گئی لڑکی کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بات زور و شور سے پھیلائی گئی کہ وہ لڑکی ایک مدرسے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بات کو بڑھا چڑھا کر یوں پیش کیا جا رہا ہے جیسے سارے مدارس یا وہاں کی تمام طالبات اس قسم کے ماحول کا حصہ ہوں۔
سب سے پہلے تو تحقیق ہونی چاہیے کہ وہ لڑکی واقعی مدرسے کی باقاعدہ طالبہ تھی بھی یا نہیں؟ کیا وہ درسِ نظامی کی طالبہ تھی یا صرف کسی ناظرہ یا دینی جماعت میں آتی تھی؟
مدارس میں بچیوں کی تعداد ملک کے تعلیمی اداروں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ایک فیصد سے بھی کم۔ جبکہ اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں میں 99 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
اگر ہم معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی گراوٹ کا جائزہ لیں تو: مدرسوں کی 99 فیصد بچیاں سادہ، باپردہ، بااخلاق اور دین دار ہوتی ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک غلط راستے پر نکلتی بھی ہے تو وہ پورے نظام پر حرف نہیں لا سکتی۔
جبکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں 99 فیصد لڑکیاں کسی نہ کسی حد تک عشق و محبت، سوشل میڈیا افیئرز یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ وہاں نیکی پر قائم رہنے والی لڑکیاں مشکل سے 1 فیصد ہوتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ صرف مدرسے کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ کیا اس ایک فیصد معاملے کی وجہ سے ان 99 فیصد بچیوں اور اداروں کو بدنام کرنا درست ہے؟ کیا ان مدارس کو بند کر دینا چاہیے جہاں سے محبتِ رسول ﷺ، قرآن، حیا، اور اخلاق کی روشنی پھوٹتی ہے؟
ہمیں انصاف سے کام لینا ہوگا۔ اگر میڈیا واقعی معاشرتی برائیوں کے خلاف ہے، تو اسے اُن اداروں پر بھی توجہ دینی چاہیے جہاں سے 99 فیصد فتنہ، بے حیائی، اور بے راہ روی جنم لے رہی ہے۔ مگر وہاں سب خاموش کیوں؟ آخر وجہ کیا ہے؟
کیا وجہ ہے کہ دین کا نام لینے والوں، پردہ کرنے والی بچیوں، اور سادہ لوح طالبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جبکہ فیشن، بے حیائی، اور مغربی تہذیب کے نمائندہ اداروں کو ‘ترقی’ کا نام دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؟
یہ سوالات سنجیدہ غور و فکر کے مستحق ہیں۔ اگر ہم واقعی معاشرے کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو انصاف، تحقیق اور توازن کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔نہ کہ صرف اسلام اور مدرسے کو نشانہ بنا کر اپنی دنیا سنوارنے کی کوشش کرنا۔