✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

نیا سال نئے عزائم

عنوان: نیا سال نئے عزائم
تحریر: آفرین لاکھانی
پیش کش: نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور

کل شام، دنیا کی ہلچل سے تھوڑا کنارہ کش ہوئی۔ خاموشی کی تسکین بخش دنیا میں قدم رکھتے ہوئے باغ میں داخل ہوئی۔ سکون پذیر، ہری، سرسبز و شاداب زمین نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔ جب زمین پر، کھلے نیلے آسمان کی آغوش میں، ایک درخت سے لگ کر بیٹھی، پھولوں کا مہکنا، چڑیوں کا چہکنا عجیب راحت و تسکین بخش تھا۔ میں اپنی سوچوں کے سمندر میں گم ہو گئی۔ درختوں کے پتے گویا جھوم کر نئے سال کی آمد کی مبارکباد دے رہے تھے۔

لیکن میرے تخیلات کے سمندر پچھلے سال کی کی گئی غفلتوں میں غوطے کھا رہے تھے۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ وقت کا برف کی مانند تیزی سے پگھل جانا، اور نئے سال کا یوں تشریف لانا، فقط کیلنڈر کے اوراق بدلنے تک محدود ہے؟ یا زندگی کے صفحات بھی پلٹ دیتا ہے؟

گزشتہ سال، کتنے عزیز ہمارے ساتھ تھے، جو دھیرے دھیرے ہم سے بچھڑ گئے۔ گزشتہ سال ہم نے خود سے کتنی قراردادیں لی تھیں جن پر عمل پیرا نہ ہو سکے۔ کتنے گناہوں سے بچنے کا عہد لیا تھا، لیکن بہک گئے۔ کتنے خواب سجائے تھے، لیکن بکھر گئے۔ کتنے پختہ عزائم و مقاصد کے ساتھ گزشتہ سال بھی شروع کیا تھا، لیکن وقت گزرتا گیا اور ہم نے اپنے مقاصد کو فراموش کر دیا۔

ہمارے خواب، ارمان، خواہشیں، آرزوئیں، مقاصد، عزائم، حوصلہ، ہمت، عہد و وعدے۔ کیا سب سمندر کی لہروں کے ساتھ بہہ گئے؟ ہم کیوں آسائشوں کے حریص اور غفلتوں کے مریض بن گئے ہیں؟ آج ہم وقت کی قدر کو کیوں فراموش کر بیٹھے ہیں؟ کیوں ہماری منزلیں آرائشوں کی قائل، اور حوصلے حالات سے زائل ہیں؟ ہم کیوں استقامت کا دامن چھوڑ دیتے ہیں؟

ہمارے عزائم، درخت کے پتوں کے مانند بکھر گئے ہیں، جو موسم کی تبدیلی سے لمحوں میں مٹی میں مل جاتے ہیں، اور دوسروں کے قدموں تلے روندے جاتے ہیں۔ جب نئے سال کی آمد ہوتی ہے، تب ہم سے جڑی شاخوں میں حوصلے و ہمت کے نئے پتے، نئی امنگ دل میں لیے اجاگر ہوتے ہیں، جیسے موسمِ بہار میں سرسبز و شاداب اشجار۔

لیکن جوں ہی وقت گزرتا ہے، حالات کٹھن ہوتے ہیں، تب ہماری ہمت پست ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ سال کے اختتام تک ہم مکمل طور پر غفلتوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ہمارے عزائم اور مقاصد، جو موسم بہار میں کھلے تھے، اس طرح ویران ہو جاتے ہیں جس طرح موسم خزاں میں پت جھڑ۔ ہماری منزلیں خاک میں مل جاتی ہیں۔

ضرورت عزم و ہمت کی ہے، قلت اور کثرت کیا
کٹے ہیں آبشاروں سے پہاڑوں کے جگر کتنے

دھیرے دھیرے، جس آسمان کی آغوش میں پناہ لے کر میں خود کو مضبوط کر رہی تھی، وہ سرخ ہونے لگا، اور چمکتا ہوا، حوصلہ بخشتا آفتاب، دوبارہ طلوع ہونے کا درس دیتے ہوئے ڈھلنے لگا تھا۔ چرند و پرند اپنے آشیانوں میں لوٹنے لگے، اشجار، پھول، کلیاں انگڑائیاں لینے لگیں، اور مؤذن کی اذانِ مغرب نے اس شام کی خاموشی کو چاک کیا، اور مجھے اپنے سوچوں کے سمندر کی لہروں سے باہر نکالا۔

لیکن میرا سوال اب بھی وہی ہے۔ کیا نئے سال کی آمد کا مطلب فقط کیلنڈر کے اوراق کا بدلنا ہے؟ یا زندگی کے صفحات کا پلٹنا؟

اپنی زندگی میں غور و فکر کریں، مشاہدہ کریں کہ ہم اس طرح کی زندگی تو نہیں گزار رہے ہیں کہ کل اگر ہم گزر جائیں دنیا سے، تو ہمیں اپنے گزارے ہوئے اعمال پر افسوس ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں