✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

ذہنی بے سکونی کا علاج

عنوان: ذہنی بے سکونی کا علاج
تحریر: عالیہ فاطمہ انیسی
پیش کش: مجلس القلم الماتریدی انٹرنیشنل اکیڈمی، مرادآباد

ایک ایسے زمانے سے ہم گزر رہے ہیں جس کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں، آج انسان کے پاس سب کچھ ہے، مگر سکون نہیں۔ ہر طرف چمکتی روشنیوں کی بہار ہے، لیکن دلوں میں اندھیرے چھائے ہوئے ہیں بینک بیلنس بھرا ہوا ہے، الماریاں قیمتی ملبوسات سے سجی ہیں، لیکن روح کسی کونے میں بے لباس پڑی کراہ رہی ہے۔

آج انسان مہنگے ہوٹلوں میں کھاتا ہے، مگر نیند کے لیے نیند آور گولیوں کا محتاج ہے۔ ہر ہاتھ میں موبائل ہے، مگر دل تنہائی کا شکار ہے۔ مسکراہٹیں چہروں پر سجائی جاتی ہیں، مگر آنکھوں کی نمی چھپائی جاتی ہے۔ غرض کہ دنیا کی دوڑ میں انسان نے سب کچھ جیت لیا، لیکن خود کو ہار بیٹھا ہے۔ وہ ہر در پر گیا، ہر سہارا آزمایا، ہر نسخہ اپنایا، مگر جس چیز کی تلاش میں تھا وہ سکونِ قلب نہ بازاروں میں ملا، نہ ڈاکٹروں کے کمرے میں۔

آخر یہ سکون کہاں ہے؟ وہ کون سی پناہ گاہ ہے جہاں یہ بے قرار دل تھم جائے؟ کہاں ملے گا اس ہے قرار دل کو قرار؟ کیا ہے اس بے چینی کا سبب؟؟

جب ہم اس بے سکونی کی وجوہات تلاش کرتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ انسان نے اپنے خالق سے رشتہ کمزور کر لیا ہے۔ وہ یادِ خدا سے غافل اور ایمان کے نور سے محروم ہو چکا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں اسلام ہمیں ایک باطنی علاج، ایک ایسا روحانی راستہ دکھاتا ہے جو انسان کو سکونِ قلب عطا کرتا ہے۔ ایک ایسا راستہ جو بظاہر سادہ ہے، مگر باطن میں دنیا و آخرت کی راحت چھپائے ہوئے ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورہ رعد: 28)

ترجمہ کنزالایمان: یاد رکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ جو سکون انسان دنیا میں ڈھونڈ رہا ہے، وہ اصل میں اللہ کی یاد میں پوشیدہ ہے۔ دنیاوی چیزیں وقتی خوشی دے سکتی ہیں لیکن مستقل اطمینان نہیں۔ ذہنی دباؤ کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان ہر کام کا نتیجہ اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ اس کی مرضی سے ہو، لیکن جب ایسا نہیں ہوتا، تو وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسلام اس کیفیت کا حل توکل کی صورت میں دیتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕ وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗؕ (سورہ طلاق: 03)

ترجمہ کنزالایمان: اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اُسے کافی ہے۔

اس آیت سے معلوم ہو اکہ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ پر توکُّل کرنا چاہئے اور اپنے تمام اُمور میں اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔توکّل کے بارے میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:

عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لو أنكم توكلون على الله حق توكله، لرزقكم كما يرزق الطير، تغدو خماصا، وتروح بطانا ( ترمذی: 2351)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگرتم اللہ تعالیٰ پراس طرح توکُّل کروجس طرح توکّل کرنے کاحق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیاجائے گاجس طرح پرندوں کو رزق دیاجاتا ہے ،وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اورشام کو پیٹ بھر کر آتے ہیں۔

توکل کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کوشش چھوڑ دے، بلکہ یہ ہے کہ وہ نتیجہ اللہ کے سپرد کر دے۔ یہ سوچ انسان کو اندر سے مضبوط بناتی ہے۔

دل کی بے سکونی اور بے چینی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان نے گناہوں کے دلدل میں خود کو ڈبو دیا ہے یہی گناہوں کا میل اس کے سکون پر غالب آ گیا، اور اسے نیکیوں سے دور کرتا ہے۔

قرآن کہتا ہے:

كَلَّا بَلْٚ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ (المطففین: 14)

ترجمہ کنزالایمان: کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ گناہ دل کو میلا کرتے ہیں اور گناہوں کی زیادتی دل کے زنگ کا باعث ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

إنَّ العبدَ إذا أخطأَ خطيئةً نُكِتت في قلبِهِ نُكْتةٌ سوداءُ، فإذا هوَ نزعَ واستَغفرَ وتابَ سُقِلَ قلبُهُ، وإن عادَ زيدَ فيها حتَّى تعلوَ قلبَهُ، وَهوَ الرَّانُ الَّذي ذَكَرَ اللَّه كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ( ترمذی: 3345)

جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوتا ہے، جب اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ و اِستغفار کر لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔

اور یہی رَان یعنی وہ زنگ ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہوا۔ آخرکار واضح ہو گئی کہ انسان کی بے چینی، اضطراب اور بے سکونی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے خود کو اپنے رب کی یاد سے دور کر لیا ہے۔ اس نے ذکرِ الٰہی کو پسِ پشت ڈال دیا، اور دنیا کی رنگینیوں، مصنوعی آسائشوں اور فانی خوشیوں میں اس قدر محو ہو چکا ہے کہ اس کا دل زنگ آلود ہو گیا ہے۔

اس کی روح، جو ذِکر الٰہی کی پیاسی تھی، اب دنیا کے دھوئیں سے گھٹن میں مبتلا ہے۔ وہ ہر دروازے پر گیا، ہر طبیب کو آزمایا، مگر کہیں بھی قرار نہ پایا، کیونکہ دل کا سکون بازار سے نہیں،۔ بارگاہِ ربّ العالمین سے ملتا ہے، روح کی راحت مال و زر سے نہیں، ذکر و فکر اور خشوع و خضوع سے حاصل ہوتی ہے۔

پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دلوں کے زنگ کو اللہ کی یاد سے دھو ڈالیں، اپنے وقت کا کچھ حصہ ذکر، نماز، تلاوت اور توبہ کے لیے مخصوص کریں۔ اپنا رشتہ قرآن سے، سجدوں سے، اور تنہائی کی دعاؤں سے جوڑیں۔ تاکہ دنیا و آخرت میں سکون میسّر ہو سکے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں