✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!
قارئین سے گزارش ہے کہ کسی بھی مضمون میں کسی بھی طرح کی شرعی غلطی پائیں تو واٹسپ آئیکن پر کلک کرکے ہمیں اطلاع کریں، جلد ہی اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا 🥰

سکون حقیقی کا واحد راستہ

عنوان: سکون حقیقی کا واحد راستہ
تحریر: حبیب البشر مصباحی
پیش کش: الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ

دنیا کی اس بھاگ دوڑ والی زندگی میں ہر انسان سکون و اطمینان کا متلاشی ہے۔ کوئی اسے دنیا کے جھوٹے رنگوں میں تلاش کر رہا ہے، کوئی مال و دولت میں، کوئی شہرت و کامیابی میں اور کوئی کسی انسان میں۔ حالاں کہ ان سب میں بس ایک عارضی سکون و اطمینان ہوتا ہے، جو پل بھر میں بے قراری میں تبدیل ہو جاتا ہے:

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر حقیقی اور دائمی سکون کیسے حاصل ہوگا؟

تو اس سوال کا جواب ہمیں قرآن دیتا ہے:

ألَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 28)

ترجمہ کنزالایمان: سن لو! اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا سکون ہے۔

واقعی! انسان جہاں بھی جائے، کسی خوبصورت علاقے میں، باغات، دریا، سمندر یا آبشار کے کنارے جا بیٹھے، وہ مناظر دل کو کچھ لمحوں کے لیے سکون دیتے ہیں، لیکن وہ سکون عارضی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر وہی بےچینی لوٹ آتی ہے۔ مگر ذکرِ الٰہی ایک ایسا نور ہے جو دل کی ظلمت کو دور کرتا ہے اور ایسا سکون بخشتا ہے جو وقت اور حالات کا پابند نہیں۔

دوسری جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56)

ترجمہ کنزالایمان: ہم نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔

اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اس دنیا میں آنے کا اصل مقصد اللہ کی عبادت اور بندگی ہے۔ جب کوئی انسان اپنے مقصدِ تخلیق کو فراموش کر دیتا ہے تو دنیا کے مال و اسباب، کامیابی، ترقی اور خوشیوں کے باوجود اس کے دل کو قرار نہیں آتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم صرف زیادہ کمانے کے لیے، معاش بنانے کے لیے، دنیا کو پانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، حالاں کہ ہمیں رزق کا نہیں، بلکہ رزاق کا قرب حاصل کرنا چاہیے۔ اللہ کی یاد صرف دل کو سکون ہی نہیں دیتی، بلکہ کاروبار، گھریلو زندگی اور معاشرتی نظام میں بھی برکت پیدا کرتی ہے۔

خدا کو بھول گئے لوگ فکر روزی میں
خیال رزق ہے رزاق کا خیال نہیں

(میر دوست علی خلیل)

علمائے کرام نے ذکر کی تین اقسام بیان کی ہیں

زبانی ذکر: یہ ذکر وہ ہوتا ہے جو زبان سے ادا کیا جائے۔ جیسے «سبحان اللہ، الحمدللہ ، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ» درود شریف اور دیگر اذکار۔ یہ ذکر سب سے آسان ہوتا ہے مگر اگر دل کی توجہ بھی شامل ہو تو اس کی تاثیر کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے۔ زبانی ذکر انسان کے قلب پر بھی اثر ڈالتا ہے اور دل کو نرم و روشن کرتا ہے۔

قلبی ذکر: یہ ذکر خاموشی کے ساتھ دل میں کیا جاتا ہے، اس میں زبان خاموش ہوتی ہے مگر دل اللہ کی یاد میں مشغول ہوتا ہے۔ قلبی ذکر، اخلاص، خشوع اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ ذکر اس شخص کی پہچان ہے جو دنیا کی ہنگامہ خیزی میں بھی اندر سے اللہ سے جُڑا ہوا ہو۔ یہی ذکر اولیا اور صوفیائے کرام کی راہ ہے جو تنہائی میں بھی اللہ سے محوِ گفتگو رہتے ہیں۔

عملی ذکر: یہ ذکر سب سے اعلیٰ درجہ کا ذکر ہے، کیوں کہ یہ صرف زبان یا دل تک محدود نہیں بلکہ انسان کے ہر عمل میں جھلکتا ہے۔ جب انسان کاروبار، تعلیم، دوستی، محبت، بول چال، لین دین، خاندانی زندگی غرض ہر پہلو میں اللہ کے احکام اور نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو مدِنظر رکھتا ہے تو اس کی پوری زندگی ذکر بن جاتی ہے۔ ایسا شخص اپنی خاموشی، مسکراہٹ، دیانت، عدل، تحمل اور صبر سے اللہ کی یاد کو ظاہر کرتا ہے۔

دلوں کا زنگ کیسے دور ہو

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:

 إنَّ لكلِّ شيءٍ صَقالةً وإنَّ صقالةَ القلوبِ ذكرُ اللهِ وما من شيءٍ أنجى من عذابِ اللهِ من ذكرِ اللهِ قالوا ولا الجهادُ في سبيلِ اللهِ قال ولو أن يَضرِبَ بسيفِه حتّى ينقطعَ (مشکوۃ المصابیح: 2283)

ترجمہ: ہر چیز کے لیے ایک صفائی کرنے والی چیز ہوتی ہے،جبکہ دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے ، اور اللہ ذکر سے بڑھ کر ، اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی چیز نہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا ،اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، اگر چہ وہ اپنی تلوار اس قدر چلاۓ کہ وہ ٹوٹ جائے۔

ذاکر اور غیر ذاکر کی مثال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَثَلُ الذي يَذْكُرُ رَبَّهُ والذي لا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ والمَيِّتِ. (البخاری: 6307)

ترجمہ: اپنے رب کا ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔

ذاکر کے لیے عرش کا سایہ

حضرت ابو ہریرہ راضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ساۓ میں جگہ دے گا ، جس روز اس کے ساۓ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا (ان میں سے ایک وہ شخص)

حدیث شریف میں ہے:

ورَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خالِيًا، فَفاضَتْ عَيْناهُ. (البخاری: 1423)

ترجمہ: وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو اس آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جائیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں سے گناہوں کا زنگ صاف ہو دلوں سے بےچینی اور اضطراب ختم ہو، تو ہمیں اللہ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ اس کی یاد کو اپنی زندگی کا محور بنانا ہوگا۔ ہم جتنا اللہ سے قریب ہوں گے، اتنا ہی سکون محسوس کریں گے۔ دنیا میں سکون کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں جو ہمیشہ اور حقیقی ہو۔ اللہ ہمیں اپنی یاد میں مشغول رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی

صراط لوگو
مستند فتاویٰ علماے اہل سنت
المفتی- کیـا فرمـاتے ہیں؟
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں