عنوان: | یا محمد کہنا جائز نہیں ہے تو پھر جبرئیل علیہ السلام نے کیوں کہا؟ |
---|---|
تحریر: | محمد سفیان حنفی مصباحی |
پیش کش: | الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ |
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ کو نام لے کر پکارنا یعنی ” یا محمد “ کہنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پاک میں کہیں پہ بھی نام لے کر نہیں پکارا بلکہ کہیں «یا أیّھا النّبي» تو کہیں «یا ایّھا الرّسول» کہہ کر پکارا۔ جب اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو نام لے کر نہیں پکارا تو ہم اس کے غلام ہو کر بھلا کیسے پکار سکتے ہیں۔
قرآن پاک میں ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا. (النور: ۶۳)
ترجمہ: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔
اس آیت کے تحت ” تفسیر رازی “ میں ہے:
وثانِيها: لا تُنادُوهُ كَما يُنادِي بَعْضُكم بَعْضًا يا مُحَمَّدُ، ولَكِنْ قُولُوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، يا نَبِيَّ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ. (تفسیر رازی، تحت ھذہ الآیت، الباحث القرآنی)
ترجمہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ”یا محمد“ کہہ کر ندا نہ دو جیسا کہ تم میں سے ایک دوسرے کو ندا دیتا ہے۔ بلکہ «یارسول اللہ، یا نبی اللہ» کہہ کر پکارو۔
اسی آیت کے تحت ” تفسیر ابن کثیر“ میں ہے:
قَالَ الضَّحَّاكُ: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : كَانُوا يَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَنَهَاهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ، عَنْ ذَلِكَ، إِعْظَامًا لِنَبِيِّهِ، صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا نَبِيَّ اللَّهِ. وَهَكَذَا قَالَ مُجَاهِدٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَير. (تفسیر ابن کثیر، تحت ھذہ الآیت، الباحث القرآنی)
ترجمہ: حضرت ضحاک نے فرمایا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «یا محمد، یا ابا القاسم» کہتے تھے، تو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی خاطر انھیں اس سےمنع فرما دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم «یا رسول اللہ، یا نبی اللہ» کہا کرتے تھے۔
حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
علما تصریح فرماتے ہیں: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر ندا کرنی حرام ہے۔ اور واقعی محل انصاف ہے، جسے اس کا مالک ومولی تبارک و تعالی نام لے کر نہ پکا رے (تو) غلام کی کیا مجال کہ راہِ ادب سے تجاوز کرے، بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا: اگر یہ لفظ کسی دعا میں وارد ہو جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے تعلیم فرمائی جیسے دعائے «یا محمد! انّی توجھت بک اِلی رَبِی» تاہم اس کی جگہ «یا رسول اللہ، یَا نبی اللہ» چاہیے۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۳۰، ص: ۱۵۷)
اعتراض: مذکورہ بالا آیت اور عبارات سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل عیاں ہو گئی کہ اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر پکارنا جائز نہیں ہے۔ جب جائز نہیں ہے تو پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے متعدد مقامات پہ نام لے کر کیوں پکارا؟ بطور حوالہ وہ مقامات ملاحظہ فرمائیں جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر پکارا۔
مسلم شریف میں ہے:
أنَّ جِبْرِيلَ أَتى النَّبيَّ ﷺ فقالَ: يا مُحَمَّدُ اشْتَكَيْتَ؟ فقالَ: نَعَمْ، قالَ: باسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ، مِن كُلِّ شَيءٍ يُؤْذِيكَ، مِن شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ، أَوْ عَيْنِ حاسِدٍ، اللَّهُ يَشْفِيكَ، باسْمِ اللهِ أَرْقِيكَ. (مسلم: ۲۱۸۶)
ترجمہ: حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، جبرائیل علیہ السلام نے کہا: «بسم الله أرقيك من كل شيء يؤذيك، من شر كل نفس أو عين حاسد، الله يشفيك، بسم الله أرقيك». (اللہ کے نام سے میں آپ پر دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو اذیت پہنچائے، ہر جان دار اور حاسد کے شر سے، اللہ تعالیٰ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام سے آپ پر دم کرتا ہوں)۔
ترمذی شریف میں ہے:
لَقِيَ رسولُ اللهِ ﷺ جبريلَ، فقال: يا جبريلُ ! إني بُعِثْتِ إلى أُمَّةٍ أُمِّيِّينَ ؛ منهم العجوزُ، والشيخُ الكبيرُ، والغلامُ، والجاريةُ، والرجلُ الذي لم يقرأْ كتابًا قَطُّ، قال: يا مُحَمَّدُ! إن القرآنَ أُنْزِلَ على سبعةِ أَحْرُفٍ. (ترمذی: ۲۹۴۴)
ترجمہ: اللہ کے رسول ﷺ جبرئیل علیہ السلام سے ملے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے جبرئیل! میں ایک اُمّی (ان پڑھ) قوم کے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں، ان میں بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد ہیں، لڑکے اور لڑکیاں ہیں، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے کبھی کوئی کتاب پڑھی ہی نہیں ہے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا: یا رسول اللہ! قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے۔
امام جلال الدین سیوطی ایک روایت نقل فرماتے ہیں:
أخرج ابن شاھین في السنة و البغوی فی تفسیرہ و ابن عساکر عن ابن عمر قال: کنت عند النبی ﷺ و عندہ أبو بکر الصدیق و علیہ عباءة قد خللھا فی صدرہ بخلال، فنزل جبریل علیہ السلام، فقال: یا محمد! ما لی أری أبا بکر علیہ عباءة قد خللھا فی صدرہ بخلال؟ فقال: یا جبریل أنفق ماله علیّ قبل الفتح، قال: فإن اللہ تعالی یقرأ علیہ السلام ، و یقول: قل له: أ راض أنت عني فی فقرک ھذا أم ساخط؟ فقال أبو بکر: أسخط علی ربّی؟ أنا عن ربّي راض، أنا عن ربّی راض، أنا عن ربّی راض. (تاریخ الخلفاء، ص: ۳۰)
ترجمہ: ابن شاہین نے «السنة» میں اور بغوی نے اپنی تفسیر میں اور ابن عساکر نے روایت کی ہے کہ ابن عمر کہتے ہیں: میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی وہیں عبا پہنے ہوئے بیٹھے تھے اور اس میں کانٹے لگا کر سینہ ڈھانک رکھا تھا، اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور کہا: یا رسول اللہ! میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو عبا میں کانٹوں کا ٹانکا لگائے ہوئے کیوں دیکھ رہا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ اللہ نے فرمایا: اے جبرئیل! انھوں نے اپنا سارا مال مجھ پر فتح سے پہلے خرچ کر دیا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالی انھیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس محتاجی میں تو مجھ سے راضی ہے یا ناراض؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنے رب سے ناراض ہو سکتا ہوں؟ میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں، میں اپنے رب سے راضی ہوں۔
اعتراض کا جواب: ممکن ہے کہ یہ واقعات، مذکورہ آیت مبارکہ کے نزول سے پہلے کے ہوں اور اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ” یا محمد “ کہہ کر پکارنا جائز رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں انسانوں سے خطاب ہو اور انھیں اس سے منع کیا گیا ہو اور فرشتے اس حکم سے خارج ہوں۔
ملا علی قاری ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
اذ الخطاب للآدمیین فلا یشمل الملائکة_و یحتمل أن یکون ھذا قبل تحریم ندائه ﷺ باسمه. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج: ۱، ص: ۱۰۹)
ترجمہ: اس لیے کہ اس آیت میں انسانوں سے خطاب ہے اور فرشتے اس میں شامل نہیں ہیں۔اور ممکن ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ اللہ کو نام لے کر ندا کرنے کی حرمت سے پہلے کا ہو۔
مذکورہ دلائل و شواہد سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر پکارنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ یہ خلافِ ادب ہے۔ قرآنِ کریم، اقوالِ مفسرین اور فقہائے کرام کے بیانات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ اللہ کی تعظیم کا خاص اہتمام فرمایا اور ہمیں بھی حکم دیا کہ ہم ادب و احترام کا دامن نہ چھوڑیں۔ اگرچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے بعض مواقع پر نام لے کر پکارنے کا ذکر ملتا ہے، مگر وہ یا تو نزولِ آیت سے قبل کے واقعات ہیں یا انسانوں کے لیے دیے گئے ادب کے حکم میں فرشتے شامل نہیں ہیں۔ لہٰذا، مسلمانوں کو چاہیے کہ ہمیشہ ادب کے ساتھ «یا رسول اللہ, یا نبی اللہ» جیسے الفاظ استعمال کریں، اور اس پہلو میں کسی قسم کی بے ادبی سے بچیں۔
۔