عنوان: | یزید خبیث کی تخت نشینی |
---|---|
تحریر: | غلمہ فاطمہ بصری |
پیش کش: | نوائے قلم رضویہ اکیڈمی للبنات، مبارک پور |
اسلام تاریخ کا ایک نازک ترین دور وہ تھا جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد خلافت یزید کے ہاتھ میں آ گئی امت کو دو راہوں میں تقسیم ہونا تھا ایک طرف حق دوسری طرف باطل اسی لمحے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حق کا پرچم اٹھایا
قرآن مقدس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (البقرہ 155)
ترجمہ کنزالایمان: اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا دو صبر کرنے والوں کو۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد ان کا بیٹا یزید جو بدکردار، ناپاک اور شریعت سے بیگانہ تھا تخت خلافت پر بیٹھا اس نے حکومت کے تمام اطراف میں خطوط روانہ کیے اور گورنروں کو حکم دیا کہ میری بیعت کروائی جائے خاص طور پر ان جلیل القدر صحابہ کرام سے جن کا مقام و مرتبہ عام لوگوں سے کہیں بلند ہے۔
مدینہ منورہ میں اس وقت کے گورنر ولید بن عتبہ کو خاص ہدایت دی گئی کہ حضرت امام حسین حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے فوراً بیعت لی جائے اور کسی کو ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دی جائے۔
جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یزید کی بیعت کا پیغام پہنچایا گیا تو آپ نے فوراً انکار فرما دیا کیونکہ آپ یزید کے کردار سے واقف تھے یزید فسق و فجور میں مبتلا تھا شراب و کباب میں ڈوبا ہوا تھا بے نمازی تھا اور دین کی حدود و حرمت کا کوئی پاس نہ رکھتا تھا ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنا دین کو فروخت کرنے کے برابر تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جانتے تھے کہ انکار کے نتیجے میں یزید ان کا دشمن بن جائے گا ان کی جان کا پیاسا ہو گا لیکن تقویٰ نے گوارا نہ کیا کہ جان بچانے کے لیے دین کی قربانی دی جائے اور حق و باطل کے فرق کو مٹایا جائے
اگر امام عالی مقام اس وقت بیعت کر لیتے تو بظاہر دنیا ان کے قدموں میں ہوتی یزید ان کو عزت دیتا دولت دیتا اور ہر آسائش ان کے لیے مہیا کرتا لیکن اس بیعت کے بدلے اسلام کا چہرہ مسخ ہو جاتا حق دب جاتا اور باطل کو سند مل جاتی یزید کی بدکرداری کو جواز میسر آ جاتا۔
اس لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ راہ چُنی جو کانٹوں سے بھری تھی مگر حق و صداقت سے روشن تھی آپ نے فیصلہ کیا کہ مدینہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کی جائے تاکہ دین کی بقاء اور شریعت کی عظمت کے لیے میدان میں نکل کر حق کی آواز بلند کی جا سکےیہ فیصلہ چار شعبان 60 ہجری کو ہوا۔
اور یوں قربانیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے تاریخ انسانیت کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔
الٰہی ہمیں حق کے ساتھ جینے اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں اہلِ بیت اطہار کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت نصیب فرما۔ آمین یارب العالمین۔